۔92 سال کی عمر میں تو جھوٹ نہ بولیے

537

لطیفہ نمبر ایک۔ ایک غریب شخص نے دست شناس کو اپنا ہاتھ دکھایا، دست شناس نے اس کا ہاتھ غور سے دیکھا اور کہا تم 20 سال تک غریب رہو گے۔ ’’اور اس کے بعد‘‘؟ غریب نے ایک امید کے ساتھ پوچھا ’’اس کے بعد تمہیں غربت کی عادت ہوجائے گی‘‘۔ دست شناس نے جواب دیا۔
لطیفہ نمبر دو۔ معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے 30 سال کی عمر میں دست شناس کو اپنا ہاتھ دکھایا۔ دست شناس نے غور سے ان کا ہاتھ دیکھا اور کہا ’’تم صحافت میں 20 سال تک جھوٹ بولتے رہو گے‘‘۔ اور اس کے بعد۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے پوچھا۔ اس کے بعد تمہیں جھوٹ بولنے کی عادت ہوجائے گی اور تم 92 سال کی عمر میں بھی جھوٹ بولتے ہوئے پائے جائو گے۔ دست شناس نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا۔ بدقسمتی سے دست شناس کی بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان میں فوج اور پنجاب کے خلاف نفرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا تو الطاف حسن قریشی اردو ڈائجسٹ میں لکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ اگر ہمیں ٹھیک طرح سے الطاف حسن قریشی کی تاریخ پیدائش یاد ہے تو اس وقت الطاف حسن قریشی خیر سے 92 سال کے ہیں مگر وہ لطیفے کے دست شناس کی پیش گوئی کے عین مطابق 92 سال میں بھی پوری دلجمعی کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت ان کا تقریباً تین ماہ قبل شائع ہونے والا کالم ہے۔ اس کالم میں الطاف حسن قریشی نے کلوز کے اعتبار سے نہیں منوں اور ٹنوں کے حساب سے جھوٹ بولا ہے۔ الطاف حسن قریشی نے کیا کہا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں۔
گلاس آدھا بھرا ہے یا آدھا خالی ہے، یہ بحث اْمید پرستوں اور مایوس لوگوں کے درمیان عہدِ قدیم سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ زیادہ تر لوگ اپنی طبیعت، اپنی سوچ اور اَپنے تجربات کی روشنی میں چیزوں کو دیکھتے اور ان کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اگر انہیں پے در پے صدمات سہنا پڑے ہوں اور مایوسیوں نے اْنہیں گھیر رکھا ہو، تو وہ پکار اْٹھیں گے کہ گلاس آدھا خالی ہے اور مزید خالی ہو جائے گا۔ اِس کے برعکس جو بندگان خدا قناعت پسند ہوں اور کامیابیاں اْن کے قدم چومتی ہوں، تو وہ بلا تامل کہیں گے کہ گلاس آدھا بھرا ہے اور باقی بھی بھر جائے گا۔ انسان کے اندر آس اور یاس کے مابین کشمکش کسی نہ کسی صورت جاری رہتی ہے، مگر زندگی میں کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے دامن خوش امیدی سے بھرے رہتے ہیں۔ یہی حال اْمید سے وابستہ رہنے والی قوموں کا بھی ہے جو مشکلات کا سامنا کرتے رہنے کے باوجود کبھی مایوس نہیں ہوتیں اور اَپنے نصب العین کی تکمیل میں لگی رہتی ہیں۔
اِس وقت پاکستان کا حال اور مستقبل ہمارے پیش نظر ہے۔
ہم صاف طور پر شاندار اِمکانات کی کلیاں چٹکتے دیکھ رہے ہیں اور نئے مواقع کے پھول کِھلنے لگے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اطلاع دی ہے کہ افراطِ زر کی شرح 39 فی صد سے کم ہو کر 20 فی صد رہ گئی ہے اور اَگر بروقت اقتصادی اصلاحات کر لی جاتی ہیں، تو گرانی میں تیزی سے کمی واقع ہو گی اور معاشی نمو کو فروغ ملے گا۔ سب سے زیادہ حوصلہ مند بات یہ ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادتوں نے سر جوڑ کر بین الاقوامی سرمایہ کاری کونسل قائم کی ہے جس نے کم وقت میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ اِن قیادتوں کی کوششوں سے 35 سال بعد سعودی عرب سے وزیر ِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ایک طاقت ور وَفد پاکستان آیا جس میں تین اہم وزرا اور چوٹی کے سرمایہ دار شامل تھے۔ انہوں نے پانچ سال کے دوران 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا واضح عندیہ دیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ سعودی ولی عہد عزت مآب جناب محمد بن سلمان مئی میں پاکستان کا دورہ کریں گے اور معاہدات پر دستخط فرمائیں گے۔
اِن منصوبوں میں ریکوڈیک کا منصوبہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ پوری دنیا میں موٹر سائیکلوں، کاروں، ہوائی جہازوں اور ٹریکٹروں کو بجلی پر چلانے کا رجحان تقویت پا رہا ہے۔ اِس جدید عمل میں تانبا بنیادی کردار اَدا کرتا ہے۔ صرف تانبے کی پیداوار کو اِستعمال میں لانے سے پاکستان کے تمام دلدر دور ہو جائیں گے اور پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اِس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ پھولوں سے لدا پھندا ایک نیا عہد طلوع ہونے والا ہے اور بقول شاعر ؎
پھول کِھلتے ہیں، تو ہم سوچتے ہیں
تیرے ملنے کے زمانے آئے
(روزنامہ جنگ 19 اپریل 2024)
الطاف حسن کا یہ کالم جب شائع ہوا تھا تو ہم اس وقت بھی اس کا پوسٹ مارٹم کرسکتے تھے مگر ہم نے سوچا کہ کالم میں جو کہا گیا ہے اس پر دو تین ماہ گزرنے دیے جائیں تو اچھا ہے۔ تا کہ الطاف قریشی کا سفید جھوٹ ازخود ہی عیاں ہوجائے۔ اب تقریباً تین ماہ بعد واقعتاً ازخود ایسا ہوگیا ہے۔ اسی اجمال کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
الطاف حسن قریشی نے پاکستان کو ایک گلاس سے تشبیہ دی ہے اور ان کے بقول قنوطی لوگوں کو گلاس آدھا خالی نظر آتا ہے اور امید پرستوں کو گلاس آدھا بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ 1971ء تک پاکستان کا گلاس آدھا بھرا ہوا بھی تھا اور آدھا خالی تھا مگر سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی پاکستان ٹوٹ گیا اور پاکستان سے وابستہ تمام نظریاتی امیدیں بھی خاک میں مل گئیں۔ سقوط ڈھاکا ان معنوں میں سقوط غرناطہ اور سقوط بغداد سے بڑا سانحہ تھا کہ اس سانحے میں ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے نہایت شرمناک طریقے سے ہتھیار ڈالے اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ تاریخ کا حساب بے باق کردیا ہے۔
اس وقت بچے کھچے پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ پوری قوم فوجی اور سیاسی قیادت سے مکمل طور پر مایوس ہے۔ فوجی قیادت کی اہلیت کا یہ عالم ہے کہ وہ قوم کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تک نہیں دے سکی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے جرنیل سید اور حافظ قرآن ہوں تو بھی ملکی معاملات اپنے پرانے ڈھرّے پر چلتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک پر فارم 47 کے ذریعے کامیاب ہونے والی نواز لیگ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے۔ جہاں تک ملکی معیشت کا تعلق ہے تو ہماری معیشت ڈیفالٹ سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہے اور ہم 120 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ ملک کی 10 کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے، مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ماہانہ ایک لاکھ روپے کمانے والے بھی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہماری 75 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ 80 فی صد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں مناسب طبی امداد مہیا نہیں ہوپاتی۔ کراچی ملک کا سب سے ترقی یافتہ شہر ہے اور اس شہر میں نہ پانی ہے، نہ سڑکیں ہیں، نہ بجلی ہے، نہ نکاسی آب کا اچھا نظام ہے، نہ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا آدھا کچرا سڑکوں پر پڑا رہ جاتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے ہم امریکا اور معاشی اعتبار سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے غلام ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا عظیم حصہ ملک کے مستقبل سے شدید مایوس ہے۔ گیلپ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 94 فی صد پاکستانی ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ ان میں سے 56 فی صد معاشی تنگی 24 فی صد بدامنی کی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، جب کہ 14 فی صد کو یہاں رہنے میں کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود الطاف حسن قریشی فرما رہے ہیں کہ پاکستان کا آدھا گلاس بھرا ہوا ہے۔ ارے بھائی اب پاکستان میں سرے سے کوئی گلاس ہی نہیں رہا۔ پاکستان میں صرف جرنیلوں کا مستقبل روشن ہے۔پاکستان میں صرف شریف بدمعاشوں اور زرداریوں کا مستقبل روشن ہے۔ پاکستان میں صرف بیورو کریٹس کا مستقبل روشن ہے۔
الطاف حسن کا اصرار ہے کہ وہ شاندار امکانات کی کلیاں چٹکتی دیکھ رہے ہیں اور نئے مواقع کے پھول کھلنے لگے ہیں۔ کیونکہ بقول ان کے آئی ایم ایف نے کہا کہ افراطِ زر کی شرح 39 فی صد سے کم ہو کر 20 فی صد رہ گئی ہے۔ الطاف حسن قریشی میں اگر حیا نام کی چیز ہوتی تو وہ 2024ء کے بجٹ کے آنے کا انتظار کرلیتے، اس بجٹ نے ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے گھر میں اے سی کا نام و نشان بھی نہیں۔ صرف چار پنکھے ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ مہینے ہمارے گھر میں 27 ہزار روپے کا بجلی کا بل آیا ہے۔ میں کل ہی ٹماٹر 400 روپے کلو خرید کر لایا ہوں۔ آٹا، دالیں، سبزی اور دودھ عام آدمی کی گرفت سے نکل گیا ہے۔ الطاف حسن نے 19 اپریل کے کالم میں اس بات پر خوشی کے شادیانے بجائے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے مگر اس اعلان کو ہوئے تین ماہ ہوگئے ہیں اس کے باوجود ابھی تک 25 ارب ڈالر کیا سعودی عرب نے ایک ڈالر بھی پاکستان میں نہیں لگایا۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کو ابھی تک دورہ پاکستان کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس دوران شہباز شریف متحدہ عرب امارات سے 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ لے کر آئے ہیں مگر اس وعدے کے حقیقت بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
الطاف حسن قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے سرجوڑ کر سرمایہ کاری کونسل قائم کی ہے جس نے مختصر وقت میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ یہ دعویٰ سفید جھوٹ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ ذرا الطاف حسن قریشی اس کونسل کے صرف تین کارناموں پر روشنی ڈال دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسن قریشی کا یہ بیان بھی سفید جھوٹ اور فوجی قیادت کے جوتے چاٹنے کے مترادف ہے۔ زندگی کا کیا بھروسا ہے۔ ممکن ہے ہم الطاف حسن قریشی سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجائیں مگر الطاف حسن قریشی تو 92 سال کی عمر میں گویا قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں، کیا انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ خدا ہم سے کہے گئے اور لکھے گئے ایک ایک لفظ کا حساب مانگے گا۔ چناں چہ الطاف حسن قریشی کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ خدارا 92 سال کی عمر میں تو جھوٹ نہ بولیے، اب تو جرنیلوں اور شریفوں کے بجائے خدا کو یاد کرلیجیے۔