اے ابن آدم تم اور تمہاری اولادیں ڈھائی لاکھ فی کس کی مقروض اور ملک کو لوٹنے والوں کے بچے ارب پتی، یہ کون سا دین ہے، یہ کون سا انصاف ہے، پھر جب تم مجھ سے اس کا حل پوچھتے ہو تو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملک کی قیادت جماعت اسلامی کے ہاتھوں میں دے دو اور 10 سال کا وقت دے دو، اگر سارے قرضے نہ اُتر جائیں تو کہنا۔ بس فوج کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ہم نے جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت دیکھا ہے جس میں منافع بخش اداروں کی نجکاری کرکے لوگوں نے خوب کمایا ہے، مگر اُن کے دور حکومت میں آئی ایم ایف کی اتنی مداخلت نہیں تھی، آج کے حکمران تو اُن کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ 64 ہزار ارب کا حساب کیا میاں صاحب، زرداری صاحب، عمران خان صاحب دے سکتے ہیں۔ عوامی عدالت لگائی جائے اور جس جس حکمران نے اپنے دور حکومت میں قرضے لیے ہیں وہ عوامی عدالت میں آکر حساب دے، یہ کیا حساب دیں گے ان ہی لوگوں نے تو اس ملک کو لوٹا ہے۔ لندن، امریکا، دبئی میں اربوں کی جائدادوں کے یہ اور ان کی اولادیں مالک ہیں۔
64 ہزار ارب اگر پاکستان اور پاکستانی عوام پر لگتے تو کوئی پاکستانی ملک سے باہر جا کر نوکری نہیں کرتا، ایک ڈالر ایک روپے کے برابر ہوتا، ملک میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ہوتا، ملک میں کوئی قربانی کا گوشت لینے والا نہیں ہوتا، رمضان کے مہینے میں کوئی راشن اور فطرہ لینے والا نہیں ہوتا، کوئی پاکستانی بغیر علاج کے نہیں مرتا۔ کوئی پاکستانی بھوکا نہیں سوتا، کوئی بے روزگار خودکشی نہیں کرتا، شہر میں نہ کوئی چور ہوتا نہ ہی ڈاکو، دہشت گردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پانی، بجلی، گیس مفت میں ملتی، تعلیم پر کسی والد کا پیسہ خرچ نہیں ہوتا، ہر شخص کا بڑے سے بڑے اسپتال میں مفت علاج ہوتا، ہر فرد کے پاس گاڑی ہوتی۔ امریکا، پیرس، لندن، دبئی سے لوگ پاکستان دیکھنے آتے، مگر افسوس یہ جمہوریت کا نام لے کر قوم کو بیوقوف بناتے رہے، قوم کی خوشحالی کے نام پر قرضے لیتے رہے اور اپنی نسلوں کو خوشحال کرتے رہے، مگر افسوس کہ اس قوم نے اپنی آنکھوں کو بند کر رکھا ہے، اُس کو یہ لگتا ہے کہ میاں صاحب اُس کے مخلص ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس جئے بھٹو ہی سیاست کے حرف آخر ہے، جئے مہاجر کا نعرہ لگانے یہ مڈل کلاس کے سیاست دان آج اُن کا شمار ملک کی اشرافیہ میں آتا ہے۔ 15 سال سے دونوں نے مل کر کراچی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ جئے بھٹو اور جئے مہاجر والے آپس میں نورا کشتی لڑ کر قوم کو بیوقوف بنانے کے بجائے کراچی کی آمدنی کا حساب تو دیں، سب سے زیادہ 70 فی صد ٹیکس دینے والا کراچی اس کی بربادی کا حساب تو جئے بھٹو اور جئے مہاجر والوں کو دینا ہوگا۔ میرے کراچی کا تعلیم یافتہ نوجوان رکشہ چلا رہا ہے، برگر فروخت کررہا ہے، چھولے بیچ رہا ہے اور جاہل لوگ بڑی بڑی پوسٹوں پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔ کراچی اب غیر مقامی لوگوں کا شہر بن چکا ہے، ہر سرکاری ادارے میں اردو بولنے والے کے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔
64 ہزار ارب کی اس ڈکیتی کے ذمے دار آج بھی حکومت کررہے ہیں، وہ بس سود پر سود ادا کرکے آئی ایم ایف کے تیار بجٹ پر دستخط کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا۔ حالیہ بجٹ ایک قاتل بجٹ ہے جس میں غریب عوام پر مزید اضافی ظالمانہ ٹیسکوں کے بجائے حکومت کو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سرکاری خرچے کم کرتی اور اشرافیہ کو دی گئی غیر ضروری مراعات کو ختم کرنے کا اعلان کرتی۔ بجلی کے بلوں میں مختلف قسم کے ظالمانہ بدترین جبری ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافوں کو ختم کرتی جس سے عوام کو ریلیف ملتا۔ کراچی کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا، مگر ایسا کوئی کام حکومت نے نہیں کیا بلکہ بجلی کے بلوں پر ایک اور فکسڈ ٹیکس لگادیا جو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے ماہانہ وصول کیا جائے گا جس سے حکومت کو اربوں روپے حاصل ہوں گے۔ پٹرول کی قیمتوں میں بھی عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، مثلاً 298 روپے 50 پیسے بھائی 298 وصول کرو یہ 50 پیسے ضروری ہیں اگر آپ 50 پیسے کا بھی حساب لگائیں تو یہ بھی کئی کروڑ بن جاتی ہے۔ یہ پٹرول پمپ والے کے پاس جاتے ہیں یا حکومت کے پاس کیونکہ کوئی پٹرول پمپ والا 50 پیسے واپس نہیں کرتا۔ ابن آدم کس کس چیز پر روئے گا پورا ظلم کا نظام چل رہا ہے۔
اے ابن آدم آج تک آپ نے بے شمار الیکشن دیکھے کسی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور میں یہ لکھا کہ ہم اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے قوم کو قرضوں سے نجات دلائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اقتدار میں تو آیا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ خوب مال کمایا جائے، مگر بیوقوف عوام کو پھر بھی عقل نہیں آتی، حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 600 ارب کی بجلی چوری ہورہی ہے، اس بیوقوف حکومت کو کون سمجھائے کہ جب تم 10 روپے یونٹ کی بجلی سلیب ڈال ڈال کر اور بے جا ٹیکس لگا کر مہنگی کردو گے تو غریب کے پاس چوری کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بجلی چوری کرنے کا طریقہ بھی بجلی والے ہی بتاتے ہیں، اس چوری کو روکنے کے لیے حکومت نے آئی ایس آئی اور ایم ائی سے مدد مانگی ہے۔ میری نظر میں یہ کام فوج کا ہے ہی نہیں، آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور جب کوئی قدرتی آفت آئے اُس وقت وہ اپنے وطن کی عوام کے کام آتی ہے مگر افسوس کہ ماضی کے چند جرنیلوں نے اقتدار کی لالچ میں نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا اور ہمارے سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کی لالچ میں اُن کا استعمال کیا، پھر اُن کی کردار کشی، جنرل باجوہ اور عمران خان کی کہانی تو بچہ بچہ جانتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ فوج اپنے آپ سے اس سیاست سے الگ کرنے کا باقاعدہ اعلان کردے اور اُس پر سختی سے عمل کرے۔ باجوہ صاحب کے اعلان کی طرح نہیں فوج ملک کے استحکام کی علامت ہے، فوج کی عوام بے پناہ عزت کرتے ہیں مگر ہمارے چیف صاحب عوام کے مسائل کے حل میں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرتے۔ آئی پی پیز کے خلاف کارروائی کرکے قوم کو ریلیف دلوانے میں آپ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
آج بھی مراعات یافتہ کے لیے سب راستے ہیں، بیرون ملک مقیم ریٹائرڈ بیوروکریٹ، جنرلز ڈالرز میں پنشن وصول کررہے ہیں جو سالانہ 200 ملین ڈالرز بنتے ہیں، جب اُن کو پنشن ڈالرز میں مل سکتی ہے تو ملک کے عام پنشنرز کو اتنی کم پنشن کیوں دی جارہی ہے جس سے اُس کے گھر کا کچن تک نہیں چل سکتا۔ اس وقت کم از کم ہر پنشنرز کی پنشن ایک لاکھ ہونی چاہیے، جب وزیراعظم ہائوس کے گارڈن کی اور لان کی دیکھ بھال کے لیے 60 مالی خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے لیے سالانہ 3.6 کروڑ بجٹ رکھا گیا ہے ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ تباہی قوم کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک ٹیپو سلطان یا صلاح الدین ایوبی کا انتظار ہے، علامہ اقبال ثانی کا انتظار ہے جو قوم کو جگائے۔