کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

271

برطانیہ کے نئے وزیر ِاعظم کیئر اسٹارمر کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ کیئر اسٹارمر آخر ہیں کون اور اُن سے وابستہ توقعات کیا ہیں؟
کیئر اسٹارمر کی وہی عمر ہے جو 1945 سے 1951 تک برطانیہ کے وزیر ِاعظم کی حیثیت سے کام کرنے والے کلیمینٹ ایٹلی کی تھی۔ ایٹلی نے بیش تر صنعتوں کو قومیالیا، نیشنل ہیلتھ سروس شروع کی (جو آج بھی جاری ہے اور شہریوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے)، مزدور انجمنوں کو صنعتوں میں پارٹنر بنایا اور بھارت کو آزادی دی۔ اس کے مقابلے میں فرانس نے انڈو چائنا اور الجزائر میں جنگ کی راہ ہموار کی۔ یہ زمانہ 1945 سے 1958 تک کا ہے۔ جب ٹونی بلیئر برطانوی وزیر ِ اعظم تھے تب کیئر اسٹارمر انگلینڈ کے چیف پراسیکیوٹر مقرر ہوئے اور تب وہ مسٹر سے سَر ہوئے۔ کیئر اسٹارمر چاہتے تو نائٹ ہُڈ نہ لیتے مگر اُنہوں نے خود کو سَر کہلوانا پسند کیا۔ وزارتِ عظمیٰ منتخب حکومت میں اُن کا پہلا منصب ہے۔ ایٹلی وزیر ِاعظم بننے سے قبل مشرقی لندن میں ایک انتہائی پس ماندہ علاقے کے میئر رہ چکے تھے اور انہوں نے سوشل ہاؤسنگ اور بچوں کی صحت سے متعلق پالیسیوں کا ڈول ڈالا تھا۔ 1929 میں وہ وزیر بنے اور 1935 میں لیبر پارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اِس کے بعد وہ سَر ونسٹن چرچل کی کابینہ میں نائب وزیر ِاعظم رہے۔ یہ دوسری جنگ ِ عظیم کا زمانہ تھا۔ وزیر ِاعظم بننے تک ایٹلی، ہیرولڈ ولشن اور ٹونی بلیئر کو کئی سال کا سیاسی تجربہ تھا اور چھوٹی عمر سے حکومتی امور سے اُن کی واقفیت بڑھ گئی تھی۔
کیئر اسٹامر قانون کے شعبے سے سیاست کی طرف آئے ہیں۔ انہوں نے کبھی لوکل کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا۔ وہ بیرونِ ملک انسانی حقوق کے معاملات کے وکیل تھے۔ کیئر اسٹارمر کے مزاج میں مہم جُوئی نہیں۔ وہ کورٹ روم میں ڈراما پیدا کرنے کے قائل نہ تھے۔ وہ ڈرامائی نوعیت کی اپیل اور دلائل کے بجائے قانون کے مطابق مرحلہ وار آگے بڑھتے تھے اور طے شدہ طریق ِ کار کے مطابق مقدمے کو انجام تک پہنچاتے تھے۔ کیئر اسٹارمر کے مزاج کی یہ نرمی ہی ٹونی بلیئر کو بھائی تھی۔ کیئر اسٹارمر اعلیٰ درجے کے ریاستی عہدیدار تھے مگر سیاست میں اُن کا کچھ عمل دخل برائے نام بھی نہ تھا۔
2015 میں کیئر اسٹارمر، 50 سال کی عمر میں، لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ تب لیبر پارٹی کے سربراہ جرمی کاربن تھے۔ جرمی کاربن کے مخالفین پارٹی میں بھی کم نہ تھے مگر کیئر اسٹارمر اُن سے وفادار رہے۔ 2019 میں بورس جانسن نے لیبر پارٹی کو ہرایا تو کیئر اسٹارمر نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ بنیادی بات یہ تھی کہ پارٹی میں اُن کے دشمن نہیں تھے۔ اُنہیں اہل تصور کیا جاتا تھا۔ ان کا نصیب اچھا تھا کہ بریگزٹ کے دور میں کنزرویٹو پارٹی کے وزرائے اعظم کم اہل، احمق اور بدعنوان تھے اور اُنہوں نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بھی بہت بولے تھے۔
کیئر اسٹارمر نے لیبر پارٹی کی متوقع حکومت کے لیے وزرا تیار کرنے پر بھی توجہ دی۔ کنزرویٹو پارٹی کی اچھی پالیسیوں کو انہوں نے قبول کیا۔ وہ بھی عوام پر زیادہ ٹیکس لادنے کے حق میں نہیں۔ تعلیم و صحت ِ عامہ اور ریلوے کے نظام کو وہ اضافی سرمایہ کاری کے بغیر محض اچھے انتظام و انصرام سے درست کریں گے۔ وہ بریگزٹ کے معاملے میں پیدا شدہ اختلافِ رائے کو ہوا دینے کے موڈ میں بھی نہ تھے۔ اسٹارمر نے کنزرویٹو پارٹی کی غلطیوں کا انتظار کیا۔ بورس جانسن پر دارالعوام نے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا۔ لِز ٹروز صرف 49 دن وزیر ِاعظم رہ سکیں۔ انہوں نے مالدار طبقے کے ٹیکس میں کٹوتی کی غلطی کی تھی۔
کیئر اسٹارمر مجموعی طور پر خاصے سکون کے ساتھ کام کریں گے۔ ان کے دور میں کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں۔ اسٹارمر کے سُسر پولینڈ کے یہودی تھے اور خوش دامن نے یہودیت کو اپنایا تھا۔ اسٹارمر کا گھرانہ زیادہ مذہبی نہیں تاہم یہ لوگ یہودی روایات پر بہت حد تک عمل پیرا ہیں۔ اسٹامر کو فٹبال پسند ہے۔ وہ کوئی بھی غیر ملکی زبان نہیں بولتے اور انہوں نے کبھی یورپ میں کام نہیں کیا۔
لیبر پارٹی یورپی یونین کے سوال پر منقسم رہی ہے۔ یورپی یونین سے نکل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ سوال لیبر پارٹی کو پریشان نہیں کر رہا۔ لیبر پارٹی نے دارالعوام میں 412 نشستیں جیتی ہیں۔ اسٹارمر کو 35 فی صد ووٹرز کی حمایت حاصل رہی ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین میں دوبارہ شامل ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ چار سال کے دوران وزیر ِاعظم اسٹارمر نے لیبر پارٹی کی قیادت خوب سنبھالی ہے اور اُسے ایوانِ اقتدار تک پہنچایا ہے۔ اسٹارمر پانچ سال کے لیے اقتدار میں ہیں۔ فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست ابھر رہی ہے۔ جرمنی اور اسپین میں مخلوط حکومتیں ہیں جن کی سربراہی بائیں بازو کے ہاتھ میں ہے اور اِن کی آپس کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے۔ ان تینوں ملکوں میں عوامیت بڑھ رہی ہے۔ جمہوری اقدار کو ایک طرف ہٹاکر عوام کے جذبات کو بنیاد بناکر فیصلے کیے جارہے ہیں۔
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنے تو دنیا بھر میں بہت کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ وہ یوکرین کی امداد روک سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو یورپ میں خوف کا ماحول مزید پروان چڑھے گا۔ کیئر اسٹارمر نے برطانیہ میں ایسی سیاست کو راہ دی ہے جو پُرسکون، مستحکم اور متوازن ہے۔ اس وقت برطانوی سیاست میں انقلابی مزاج بالکل نہیں پایا جاتا۔ یورپ کے لیے برطانیہ سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
(دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام کے لیے یہ مضمون ڈینس میکشین نے قلم بند کیا ہے۔)