موت ایک حقیقت ہے اور ہر شخص کو اس کا مزا چکنا ہے اور قیامت کے روز اللہ کے حضور اپنے اعمال کے ہمراہ حاضر ہوکر اپنا حساب دینا ہے۔ اللہ پاک نے بھی اپنے ان نیک بندوں کے لیے جنہوں نے اس کی اطاعت اور اس کی بندگی اختیار کی، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں حصہ لیا ان کے لیے جنت کی بشارت اور جنہوں نے اُس کی نافرمانی کی اور اللہ کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی ان کے لیے دردناک عذاب اور جہنم کا گڑھا ہے۔ دنیا کی مختصر سی زندگی دارالعمل ہے جس نے جو کچھ بویا وہ ہی وہاں کاٹے گا اور اپنے پل پل کا اسے حساب دینا ہوگا۔ لانڈھی چراغ ہوٹل مسجد قریشاں کے صدر نصیرالدین اپنے نیک اعمال اور حسنات لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ نصیرالدین کی پوری زندگی جدوجہد اور کشمکش پر مبنی تھی۔ انہوں نے 12سال کی کم عمری میں اپنے نانی اور ماموں کے ہمراہ میرٹھ سے پاکستان کے لیے ہجرت کی۔ ان کے ماں باپ بہن بھائی سب میرٹھ میں قیام پزیر رہے اور وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے بغیر پاکستان آگئے۔ پاکستان میں ان کا قیام کراچی میں کلاکوٹ کے علاقے میں تھا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی سنار کی دوکان میں ملازمت کی اور زیوارات بنانے کا کام سیکھا وہ سونے کے جوہرات کے بہترین کاری گر تھے۔ نصیرالدین صاحب پوری زندگی اس ہی کاروبار سے منسلک رہے۔ ان کی ایمان داری اور دیانت داری نے انہیں اس شعبے میں بڑی کامیابی عطا فرمائی اور وہ ایک کامیاب جیولرز مقبول ہوگئے لوگ ان پر اندھا اعتماد کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چمکا۔
کلاکوٹ میں ان کی ملاقات احمد بلوچ سے ہوگئی جو کہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ احمد بلوچ نصیر صاحب کو بھی جماعت اسلامی کے پروگرامات میں لے جاتے تھے جس کی جہ سے وہ بچپن ہی میں جماعت اسلامی سے وابستہ اور اس کے سرگرم کارکن بن گئے۔ جب لانڈھی آباد ہوا تو یہ لانڈھی چراغ ہوٹل کے علاقے میں رہائش پزیر ہوگئے۔ لانڈھی میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تحریک میں شامل رہے۔ بعد میں قومی اتحاد کی تحریک میں بھی نصیرالدین صاحب نے بھرپور حصہ لیا۔ ان کا گھر تحریک کا مرکز بنا۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ اللہ نے رزق کی فروانی عطا فرمائی تو دل بھی بڑا عطا فرمایا ان کا دستر خوان بہت وسیع تھا آئے دن دعوتیں ہوتی تھیں جس میں ہرخا ص وعام شریک ہوتا تھا۔
نصیرالدین صاحب انتہائی شفیق مہربان شخصیت کے مالک تھے بچے بڑے سب کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان کو بالکل اپنے بچوں جیسا ہی سمجھتے تھے۔ مسجد قریشاں کے صدر ٹھیکیدار معشوق علی کے انتقال کے بعد انہیں مسجد قریشاں کا صدر بنایا تو مسجد کی خدمت میں دن رات ایک کردیا وہ خود کو مسجد کا صدر کے بجائے مسجد کا خادم کہلانا پسند کرتے تھے۔ ان کے ماشاء اللہ آٹھ بیٹے ہیں جن میں ایک رئیس کا انتقال ہوگیا باقی تمام بیٹے اپنے والد کی طرح مسجد کی خدمت میں خود کو وقف رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک میں مسجد قریشاں کا ایک الگ ماحول ہوتا ہے۔ معتکفین کی خدمت میں پورا خاندان اور جماعت اسلامی کا حلقہ پیش پیش رہتا ہے۔ معتکفین کی تربیت کے لیے بہترین مقررین کا انتظامات کے لیے علاوہ سحری، افطار اور رات کے کھانے کا بہتر سے بہتر انتظامات کیے جاتے اور معمولی سی بھی کمی اور کوتاہی برداشت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے بھی یہاں لوگ اعتکاف کے لیے آتے ہیں۔
شہید مرزا لقمان بیگ کی شہادت کے وقت مسجد قریشاں پر کچھ فتنہ پرور قابض ہونا چاہتے تھے۔ شہید مرزا لقمان بیگ اپنی شہادت سے پانچ منٹ قبل نصیرالدین صاحب سے ملاقات کی اور اس معاملے میں ان سے مشاورت کی اور انہیں تسلی تشفی دی۔ جس کے بعد وہ اپنے گھر روانہ ہوئے اور چند منٹ کے بعد ہی وہ اپنے گھر کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور شہید ہوگئے۔ اس پرفتن دور میں جب لانڈھی میں خوف اور دہشت کی کیفیت تھی نصیر الدین بہادری اور جرأت مندی کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور جماعت اسلامی کے کارکنان کو حوصلہ فراہم کیا۔ جرأت مندی اور انتہائی بہادری کے ساتھ اس وقت کے امیر ضلع شہید محمد اسلم مجاہد کے ساتھ مل کر ان تمام فتنوں گروں کا مقابلہ کیا اور تمام سازشوں کو ناکام بنایا گیا۔ آج الحمدللہ نصیرالدین صاحب کا پورا گھرانہ انتہائی ذوق وشوق کے ساتھ اپنے والد کے اصولوں کے مطابق مسجد اور مسجد کے نمازیوں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔
نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں نصیرالدین صاحب کے صاحبزادے انیس نصیر لانڈھی ٹائون کی یونین کونسل کے نائب ناظم منتخب ہوئے تھے اور ابھی اس دور میں بھی لانڈھی ٹائون میں یوتھ کونسلر نصیرالدین صاحب کا پوتا منتخب ہوا ہے۔ نصیرالدین نے پوری زندگی بھرپور طریقے سے اقامت دین کا کام کیا۔ انہوں نے دین کو صحیح طور پر سمجھا اور پھر اس پر ڈٹ گئے اپنا مال دولت، گھر بار اور اولادیں سب تحریک کے لیے وقف کردی۔ وہ جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن نہیں تھے لیکن وہ رکن سے زیادہ آگے بڑھ کر کام کیا کرتے تھے۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ اپنے ربّ سے تشکر کا اظہار کررہا ہوتا انہوں نے انتہائی کامیاب زندگی گزاری۔
ان کی شرافت اور ایمان داری کی گواہی ان کے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ خدمت گار بن کر اللہ کے بندوں اور اللہ کے گھر کی خدمت کرنا بڑے اجرو ثواب کا کام ہے اور یہ کام اللہ پاک ہر ایک سے نہیں لیتا بلکہ اپنے من پسند بندوں کو اس کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ نصیر الدین صاحب بھی اللہ کے ان نیک بندوں میں سے جنہوں نے حقیقی معنوں میں ثابت کیا کہ میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی