نیا مالی سال نئی مشکلات

286

نیا مالی سال شروع ہو چکا، نت نئے ٹیکس لاگو ہو چکے، کوئی عوامی شعبہ شاید ایسا باقی نہیں رہا جہاں لوگوںکو نچوڑا نہ گیا ہو، فی زمانہ تو احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کا دور دورہ ہے، یا تو پاکستانی نفسیات کے مطابق چند روز شور و غل کرنے کے بعد معاملات ٹھنڈے ہو جائیں گے یا پھر شاید عوامی تحریک زور پکڑ لے، لگ تو یہی رہا ہے کہ موجودہ مہنگائی اور ناروا بل لوگوں کے بس کی بات ہے ہی نہیں، جلد ہی یہ سب کچھ منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عام آدمی کی فریاد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت کی جانب بجٹ پیش کرنے اور وفاق کی جانب سے بجٹ کے خدوخال واضح ہونے پر مایوسی اور پریشانیوں میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے، بجلی پھر سے مہنگی ہوگئی ہے، کسی کا کہنا ہے کہ مجھے بجلی کا ایک ماہ کا بل تیس ہزار روپے کا بھیجا گیا ہے جس میں گیارہ ہزار روپے کے ٹیکس شامل کیے گئے ہیں، جب کہ بجلی و گیس سمیت ہم بازار سے جو بھی اشیائے خوردنی اور روزمرہ کے استعمال کی کوئی بھی چیز خریدتے ہیں۔ اس پر حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے اور سرکاری طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ نے پنشن کو بہت بڑا بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک خیرات نہیں ٹیکس پر چلتے ہیں۔ ٹیکس کلچر میں تبدیلی پر بھی انہوں نے زور دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سخت مالی حالات میں بھی حکومت کی شاہ خرچیوں میں کمی نہیں آرہی اور ای سی سی اجلاس میں سابقہ اور موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے سرکاری ملازمین کے لیے اعلان کردہ اضافی تنخواہیں بھی جاری کرنے کی منظوری دی گئی اور حکومت نے ملک کے گمبھیر معاشی حالات کے باوجود وزیر اعظم ہاؤس کی مزید تزئین و آرائش کے لیے 162.5 ملین روپے منظور کیے جب کہ سیکڑوں ارب کی مقروض پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کیوں پیچھے رہتی اس نے بھی اپنے وزیروں کی مراعات میں اضافہ کر دیا ہے اور جس وزیر کو گھر کے ماہانہ کرائے کی مد میں ستر ہزار روپے دیے جارہے تھے اسے اب دو لاکھ روپے ملیں گے جب کہ دیگر مراعات بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

ایک طرف ہم کشکول ہاتھ میں اٹھائے قرضوں پر قرضوں لیتے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف شاہ خرچیوں کا بازار گرم ہے۔ ایک مختاط انداز کے مطابق ایک وزیر کا ماہانہ خرچہ 2 سے3 کروڑ روپے ماہانہ ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی تقریباً 75قائمہ کمیٹیاں اور ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ارکان کی تعداد سیکڑوں ہے۔ اکائونٹس اور آڈٹ کے ایک اعلیٰ اہل کار کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ایک رکن کا ماہانہ خرچہ 4سے 5لاکھ ہے جبکہ سینیٹ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ جو کہ ماہانہ کروڑوں میں بنتی ہے اس کے علاوہ ہے۔

علاوہ ازیں حکومتی سطح پر کچھ ایسے عہدے ہیں جن کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا۔ جب ہم دوسری جانب دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہم تک پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق ایران کے سابق صدر احمدی نژاد صدر منتخب ہوجانے کے بعد بھی 126مربع گز کے اسی گھر میں رہتے تھے جو ان کے والد نے ان کے حصے کے طور پر انہیں چند برس قبل دیا تھا۔ وہ آج بھی 1976ء کے ماڈل کی کار استعمال کرتے ہیں، جس میں AC نہیں ہے۔ انہوں نے ایوانِ صدر کے قیمتی قالین قریبی مسجد کو عطیہ کر دیے اور معمولی فرنیچر سے سجے عام سے کمرے میں غیر ملکی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے لیے قریبی مسجد میں محافظوں کے بغیر ہی جاتے ہیں اور پچھلی صف میں کھڑے ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اور اس سے سپر پاور امریکا بھی لرزتا ہے اور کچھ کہنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں صرف چند دہائیوں کے دوران اپنے سیاسی عزم و بصیرت کی بنیاد پر ترقی کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ 50 سال سے عوام کو مسلسل دھوکا دیا جا رہا ہے اور روٹی کپڑے ومکان سے ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں نے عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا کیا نہ عوام کو کوئی ریلیف دیا۔ ملک پر مسلسل قرضوں کا وہ بوجھ بڑھایا گیا۔ جو عوام نے لیے ہی نہیں مگر ملک کا دنیا میں آنے والا ہر بچہ بھی مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ ملک کے لیے لیے گئے قرضے عوام پر تو اب تک خرچ نہیں ہوئے وہ تمام حکمرانوں کی عیاشیوں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ حکمران اپنی مراعات مسلسل بڑھا رہے ہیں اور دوسروں سے خیرات مانگنے والے حکمران شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ان کے گھروں پر غیر ضروری طور پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، وزیر اعظم نے کفایت شعاری کا اعلان کیا تھا جب کہ قرضوں میں ڈوبے ملک کی افسر شاہی پر حکومتی نوازشات جاری ہیں جس پر آئی ایم ایف نے بھی اعتراض کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے افسروں کی تنخواہیں پہلے ہی زیادہ ہیں مگر انہیں پانچ اضافی تنخوا میں صرف انہیں خوش کرنے کے لیے دی گئی ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کے لیے کسی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے بلکہ قرضوں کے بوجھ، شدید مہنگائی اور مہنگی ترین بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات خرید نے والے عوام عشروں سے ریلیف سے محروم چلے آرہے ہیں۔

عوام آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ تو پہلے ہی اُٹھا رہے ہیں جو انہوں نے نہیں حکومتوں نے لیے عوام اپنے بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے خود اپنوں سے قرضے لے کر گھریلو اخراجات پورے کر رہے ہیں اور متوسط طبقہ بالکل پس کر رہ گیا ہے اور بلبلا رہا ہے۔ عوام کو تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے مگر سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم ہے نہ سہولتیں بلکہ عملہ بھی نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائیں ہیں نہ عملہ اور نہ ڈاکٹر عوام مجبوراً نجی اسپتالوں میں جا کر مزید لٹ رہے ہیں۔ عوام ملکی حالات سے تنگ آ کر باہر جانا چاہتے ہیں تو انہیں جلد پاسپورٹ نہیں ملتے موجودہ حکومت نے نیا ظلم یہ کیا ہے کہ پاسپورٹ کی فاسٹ ٹریک فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا ہے۔ جو لوگ باہر جانا نہیں چاہتے اور اپنے اسی گلشن ملک میں رہنا چاہتے ہیں حکومتوں نے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔ گزشتہ مہینوں میں لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں اور وہ کیسے گئے وہ وہی جانتے ہیں۔ قانونی طور پر ملک چھوڑ کر جانا آسان نہیں اس لیے روزگار کی تلاش میں جانے والے غیر قانونی ذرائع استعمال کر کے لٹ اور مر رہے ہیں اور پکڑے جانے والے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ اس ملک کو آباد رکھنے کے لیے عوام تنہا عشروں سے قربانیاں دے رہے ہیں جن کا اب ملک میں جینا ہی دشوار بنا دیا گیا ہے، اب وہ اپنے بچوں کو پال سکتے ہیں نہ انہیں تعلیم دلا پارہے ہیں، اب وزیر اعظم پاکستان کے چین کے دورے کی مبینہ کامیابی کے بعد عام آدمی کو پھر سے دلاسہ دینے کی کوشش کی جارہی اور مشترکہ ترقی کے خواب دکھائے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حقائق بیانیے سے بالکل مختلف ہے۔