آپ یہ تو کر سکتے ہیں

315

بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے اتوار 7جولائی کے اخبارات میں وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک امید افزا بیان شائع ہوا کہ بجلی کے بلوں کی زیادتی کے حوالے سے حکومت اور میں عوام کے جذبات و احساسات سے لا تعلق یا لا علم نہیں ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 100 یونٹ والے صارفین کی طرح 200 بلکہ 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بھی ریلیف پر کام ہورہا ہے۔ جو چھوٹ اور رعایت سو یونٹ والوں کو دی جارہی ہے اب وہ دو اور تین سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو بھی دینے پر غور ہورہا ہے، اس بارے میں جلد فیصلے ہوں گے عوام یقین رکھیں کہ ان کو ضرور ریلیف ملے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ آئی پی پی کے معاہدوں پر بھی کام ہورہا ہے ہماری وزارت اور ٹیم اس پر کام کررہی ہے، ہم مثبت نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔ آج پیر 8جولائی کے اخبار میں ایک خبر ہے کہ ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے صارفین سے یونیفارم ٹیرف کے بارے میں عوامی سماعت دس جولائی کو ہوگی نیپرا نے وفاقی حکومت کی درخواست پر عوامی سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔ نیپرا اعلامیہ کے مطابق وفاقی حکومت کی درخواست کی اس سماعت میں تمام اسٹیک ہولڈرز عوامی سماعت میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتا ہے۔

جس طرح آج کل شہر میں شدید حبس کا موسم چل رہا ہے ایسے میں کہیں ہلکی سے بوندا باندی ہوجائے اور کچھ ٹھنڈی اور خوشگوار ہوائوں کے جھونکے چلنے لگے ایک سکون سا ملتا ہے بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے مسلسل اضافے کی خبروں سے عوام میں گھٹن اور بے چینی بڑھتی جارہی تھی ان ناخوشگوار حبس کے ماحول میں درج بالا خبریں عوام کے لیے ٹھنڈی ہوا کاجھونکا ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ان خبروں پر عمل ہو جائے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتی ہے، اس لیے ان کو جو ریلیف ملے گا اس سے پاکستانی عوام کی بہت اکثریت مستفیض ہوگی۔ آئی ایم ایف کے کہنے سے بجلی کے چارجز بڑھا دیے چلیے یہ آپ کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر آپ کو چھے ارب ڈالر کا قرضہ نہیں ملے گا یہی نہیں بلکہ دیگر مالیاتی اداروں سے بھی ڈیل کرنے میں مشکلات کے پہاڑ درمیان میں آجائیں گے۔ اسی طرح کیپسٹی چارجز یا گردشی قرضوں کا مسئلہ پہلے والوں کی غلطیاں ہیں جس کو آپ مجبوراً بھگت رہے ہیں۔ لیکن ان سب کے علاوہ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے اداروں ڈسکوز یا کے الیکٹرک کی داخلی بے ضابطگیاں ہیں اس کو درست کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد تو نہیں آئے گا اسے تو وزیر اعظم صاحب کو خود ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسی طرح آپ جس طرح آئی پی پی کے معاہدوں پر نظر ثانی کررہے ہیں اس کو دیکھ رہیں اسی طرح کراچی والوں کا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کو جو بیس سال کی توسیع دی گئی ہے اسے منسوخ کیا جائے، عبوری حکومت کو یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ ایسے عوام دشمن فیصلے کریں۔ اور موجودہ حکومت کے الیکٹرک پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے اور یہاں اس کے پر جلتے ہیں تو شہباز زشریف جو کھل کر صاف صاف باتیں بغیر کسی لگی لپٹی کرنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں وہ سب تفصیل عوام کے سامنے رکھ دیں۔

اب ہم یہاں ان اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ہمارے وزیر اعظم اٹھا سکتے ہیں اس میں ان کو کوئی روکنے والا نہیں ہے پہلی تو یہی بات کہ جس کی سماعت نیپرا 10 جولائی کو کررہا ہے کہ کراچی والوں کو بجلی کا جو بل دیا جاتا ہے وہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے بلوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ شہباز شریف خود کراچی کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے دس تاریخ کو نیپرا کی کھلی سماعت میں پہنچ جائیں۔ ہم آپ کو یہاں پٹرول کی مثال دینا چاہیں گے کہ کراچی میں پٹرول آتا جو پورے ملک میں سپلائی ہوتا ہے کراچی سے لاہور ٹینکروں میں جو پٹرول جاتا ہے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے پورے ملک میں اس کی ٹرانسپورٹیشن پر خرچ ہوتے ہیں لیکن پٹرول کی قیمتیں پورے ملک میں یکساں ہوتی ہیں انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کراچی میں پٹرول کی قیمتیں کم ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے اس لیے جب پٹرول کے ٹیرف پورے ملک میں یکساں ہیں تو بجلی کے ٹیرف بھی پورے ملک میں یکساں ہونا چاہیے۔ آپ کو اگر فرق دیکھنا ہو تو کراچی کا کسی کا 250 یونٹ کا بل دیکھ لیں اور اتنے ہی یونٹ کا لاہور کا دیکھ لیں آپ کو فرق نظر آجائے گا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کے الیکٹرک کس طرح کراچی والوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔

آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ سلیب سسٹم کے ظالمانہ نفاذ کو ختم کرکے اسے منصفانہ بنادیں۔ سو یونٹ سے اوپر اور دوسو سے کم جو یونٹ ہوں گے مثلاً کسی کے 150یونٹ بنے تو اس سے پہلے سو یونٹ کا حساب ہوگا اور سو سے اوپر جو 50یونٹ ہوں گے ان پچاس یونٹ کے چارجز جو 101 سے 200 کے ریٹ کی شرح سے ہوگا ایسا نہیں ہوگا کہ پورے ڈیڑھ سو یونٹ کا حساب سیکنڈ سلیب کے ریٹ سے لگایا جائے۔ آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ دوسو سے اوپر والے صارف پر ہونے والے اس ظلم کو ختم کردیں کہ: پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر دو بل دکھائے گئے کہ 200 یونٹ والے کا بل تین ہزار سے کچھ کم تھا اور 201 یونٹ والے بل کی رقم آٹھ ہزار تھی اس طرح ایک یونٹ کے اضافے سے پانچ ہزار روپے زیادہ لے لیے گئے وزیراعظم صاحب اس ظلم کو ختم کراسکتے ہیں۔ آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ کے الیکٹرک اپنے ان صارفین کو جو غلطی سے ایک دفعہ بھی دوسو یونٹ سے اوپر چلے گئے 6ماہ تک بلنگ اسی شرح سے کرے گی جو 201 سے 300 تک کی ہے چاہے وہ سو یا اس سے کم یونٹ ہی استعمال کرے آپ اس چھے ماہ کی سزا کو ختم کراسکتے ہیں میرے خیال میں اگر آپ سلیب سسٹم کو منصفانہ بنادیں گے تو یہ سزا ازخود ختم ہو جائے گی۔

آپ یہ بھی کرسکتے ہیں واپڈا اور ڈسکوز کے ملازمین کی مفت بجلی کی سہولت ختم کردیں آج ہی فیس بک پر دیکھا کہ واپڈا کے ایک ملازم کا 345 یونٹ کا بل 232 روپے آیا ہے اور کراچی میں اتنے ہی یونٹ کا بل بیس ہزار سے کم نہیں ہوگا۔ آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ ہماری اشرافیہ گریڈ 18 سے 22 تک کے سرکاری افسران کے فری یونٹ ختم کردیں اگر آپ ایسا کردیں گے تو آئی ایم ایف آپ کا ہاتھ نہیں پکڑے گا۔ آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اووربلنگ کی لعنت کو ختم کروادیں اس حوالے سے وزیراعظم کا بیان تو آیا ہے کہ اوور بلنگ کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ کراچی میں بیش تر ادارے ایسے ہیں جو کے الیکٹرک کے مقروض ہیں اور خود کے الیکٹرک مختلف اداروں کی اربوں روپے کی مقروض ہے ہماری حکومت کیا ان کے درمیان فیصلہ نہیں کراسکتی۔

آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ پورے ملک میں بجلی کی چوری کو پوری قوت سے ختم کرادیں اس کے لیے ایک خبر تو نظر سے گزری ہے کہ حکومت فوج اور رینجرز سے اس سلسلے مدد لے گی لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکے گا اس لیے کہ ایک انگلش کا قول ہے Law Maker is limited and Law breaker is unlimited یعنی قانون بنانے والے محدود ہوتے ہیں مطلب ان ہاتھ پیر بندھے ہوتے ہیں جبکہ قانون توڑنے والے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں ویسے بھی ہمارے ملک میں عام تاثر یہ بھی ہے کہ جو لوگ بجلی چوری میں ملوث ہوتے ہیں وہ ریاست سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔