عالمی سیاست و معیشت میں یورپ کا کردار ہمیشہ کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ پانچ صدیوں کے دوران دنیا کا حُلیہ بدلنے میں یورپ پیش پیش رہا ہے۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے یورپ کی پیش رفت ہی اِن پانچ صدیوں کے دوران دنیا بھر میں طرح طرح کی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتی رہی ہے۔ یورپ کی نسلوں ہی نے امریکا کو موجودہ برتری تک پہنچایا ہے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت نے یورپ کو دنیا بھر میں پھیلنے اور اپنی مرضی کے مطابق بہت کچھ کرنے کا حوصلہ دیا۔ یورپی اقوام ہی نے نوآبادیاتی نظام تشکیل دیا یعنی خطوں اور ممالک کو فتح کرکے غلام بنایا اور اُن کے وسائل لُوٹ کر اپنے خزانے بھرے۔ یہ سب کچھ پانچ صدیوں کے دوران ہوتا رہا ہے۔ اب یورپ کو اندازہ ہوچکا ہے کہ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ مزید برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر جس عالمی نظام کو قائم کیا اور پروان چڑھایا تھا وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چین، روس اور کئی دوسرے مضبوط ممالک تیزی سے ابھر کر اپنے آپ کو منوانے کے لیے بے تاب ہیں۔ بھارت بھی عالمی سیاست و معیشت میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔
یورپ عمومی سطح پر یہ محسوس کر رہا ہے کہ اپنی شاندار ترقی اور خوش حالی کو برقرار رکھنے کے لیے دروازے بہت حد تک بند رکھنا ہوں گے۔ دوسری طرف ایک بڑا دردِ سر یہ ہے کہ یورپ کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ یورپی اقوام کی نئی نسل گھر بار اور اہل و عیال کے چکر میں پڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں یورپ کے پالیسی ساز یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ آبادی کے برقرار نہ رہنے کی صورت میں ریاستی و قومی وجود کو برقرار رکھنا کیونکر ممکن ہوگا۔
فرانس کے انتخابات نے بہت کچھ بیان کردیا ہے۔ پہلے مرحلے میں میرین لی پین کی قیادت میں قائم انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اتحاد نے نمایاں کامیابی حاصل کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔ دوسرے مرحلے میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے بائیں بازو کی جماعتیں ایک ہوگئیں۔ یوں اُن کی فتح ہوئی اور فرانس میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد انتہائی دائیں بازو یعنی خالص قوم پرستانہ جماعتوں کی پہلی حکومت کے قیام کی راہ ہموار نہ ہو پائی۔ یورپ میں خالص قوم پرستی کی لہر سی آئی ہوئی ہے۔ یہ لہر عوامیت کے کاندھوں پر سوار ہے۔ جمہوری روایات کمزور پڑ رہی ہیں۔ عوامی رجحانات کو ہر حال میں مقدم رکھنے کی دوڑ سی شروع ہوا چاہتی ہے۔ کئی صدیوں تک مشکلات اور بحرانوں کی چھلنی سے چھن کر، نکھر کر سامنے آنے والی یورپی جمہوریت کی دیواروں میں اب دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔
یورپ میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تارکینِ وطن کا ہے۔ جب ضرورت تھی تب یورپی اقوام نے دنیا بھر سے انتہائی باصلاحیت اور ہنرمند افراد کو اپنے ہاں بلایا اور اپنے صنعتی و تجارتی ڈھانچے کو مضبوط بنایا۔ جب ضرورت پوری ہوگئی اور مقاصد حاصل ہوگئے تو تارکینِ وطن کَھل رہے ہیں، اُن کا وجود معیشتوں پر بوجھ محسوس ہو رہا ہے۔ یورپی اقوام نے پس ماندہ اقوام کے لوگوں کو افرادی قوت کے طور پر قبول کرکے کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ اُن کی پس ماندگی کا بنیادی سبب بھی یورپی اقوام کا استحصالی نظام ہی تھا۔ یورپی اقوام نے بحری مہمات کے ذریعے افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک کو فتح کرنے کے بعد غلام اور پس ماندہ بنایا تھا۔ جدید دور میں قدیم دور کی سی غلامی کی گنجائش تو نہیں تھی مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ مفتوح اقوام کے قدرتی وسائل لُوٹ کر یورپ نے اپنی ترقی و خوش حالی کا تاج محل تعمیر کیا؟
فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اسپین اور یونان میں انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست تیزی سے ابھرے ہیں۔ تارکینِ وطن کو ہَوّے کے طور پر استعمال کرکے یہ لوگ اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو ڈرا رہے ہیں تاکہ اُن سے گلو خلاصی کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاسکے۔ یورپ کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ بعض اندرونی پیچیدگیوں کے باعث وہ بند گلی میں پھنستا جارہا ہے۔ اِس مسئلے کا معقول حل تلاش کرنے کے بجائے وہ اپنے دروازے بند کرنے کی ذہنیت کے جال میں پھنسنے کو ترجیح دے رہا ہے۔
کیا یورپ کے پاس اب اپنے دروازے بند کرنے، اپنے وجود تک محدود ہونے کا آپشن بچا ہے؟ یورپی قائدین امریکا سے نالاں ہیں کیونکہ اُس نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے یورپ کو خوب استعمال کیا ہے۔ ایسے میں یورپ کو اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ پہلے برطانیہ اور اُس کے بعد اب فرانس میں لوگوں نے تارکینِ وطن سے نفرت پر اُکسانے والوں کو مسترد کردیا ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ تارکینِ وطن آج بھی یورپ کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اُن سے خوفزدہ ہوکر جان چُھڑانے کے بجائے اُنہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جاسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب پردیسیوں کا خوف تنگ نظری کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ تنگ نظری بھی تاریکی ہی ہے۔ یورپ کے اعلیٰ ترین ذہنوں کو سوچنا چاہیے کہ خود کو الگ تھلگ کرکے زیادہ دن تک اپنی ترقی و خوش حالی کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ جامع منصوبہ بندی کے ذریعے اعلیٰ یافتہ اور ہنرمند بیرونی افرادی قوت کو قبول کرکے ہی یورپی معیشتوں کو مستحکم رکھا جاسکتا ہے۔ تنگ نظری کے ذریعے تمام ہی تارکینِ وطن کو بوجھ سمجھنا، واجبات میں شمار کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ سوچ نہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے تصورات کو معقول طریقے سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
(برطانوی اخبار دی گارجین سے انتخاب)