کراچی (رپورٹ \محمد علی فاروق) حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی ترجیحات میں بڑے لوگ پیدا کرنا شامل نہیں‘ ہمارا معاشرہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہے‘ تعلیمی نظام اردو، انگریزی میڈیم، دینی مدارس کا ملغوبہ ہے‘ دفاع کو منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا‘ حکمرانوں کے لیے سیاست سرمایہ کاری بن گئی‘ تعلیمی و تہذیبی رشتہ موجود نہیں جو دل میں تخلیق آرزو کا باعث بنے‘ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے ،ہم پھسڈی ہیں یہ کہہ کر ہم نوجوان نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب قیم سید وقاص انجم جعفری، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر سید نواز الہدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کر پا رہے؟‘‘ وقاص انجم جعفری نے کہا کہ اس بات سے تو شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ انسانی شخصیت کی تشکیل میں بچپن ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے‘ اب اسی کو بنیاد بناتے ہوئے سوچیں کہ ہم اپنے یہاں کے انسانوں کو عمر کے اس اساسی حصے میں کیا ماحول مہیا کر رہے ہیں‘ کیا ہمارے پاس کوئی کلاسیکی ثقافتی
بیانیہ موجود ہے جس میں آگے بڑھنے کی ہمیں جدوجہد کرنی ہے؟ مثلاً برطانوی معاشرے میں پیدا ہونے والا ایک انسان شعوری اور لاشعوری دونوں طریقے سے اپنے خطے، نسل اور تہذیب کی ایک طویل روایت سے جڑا ہوا ہوتا ہے‘ اس کو اپنے پیچھے اجداد کی ایک مسلسل تہذیبی روایت چلتی ہوئی نظر آتی ہے‘ اس نے اسی کو آگے لے کر چلنا اور اس میں مقدور بھر اضافہ کرنا ہے‘ تحریک احیائے علوم کے دوران یورپ میں پے در پے پیدا ہونے والے فلسفی اور سائنسدان اچانک نمودار نہیں ہوئے تھے بلکہ عقلیت پرستی کی اسی روایت کا تسلسل تھے جو پچھلے ہزار سال سے وہاں رفتہ رفتہ نمو پا رہی تھی‘ اسی طرح ہمارے علاقے میں ایرانیوں کو دیکھ لیجئے‘ ہر ایرانی شخص اپنی تاریخ اور اپنے ادب کے ذریعے اپنی تہذیب سے مسلسل پیوست نظر آتا ہے‘ اپنے اجداد کے ساتھ اس تہذیبی رشتے میں منسلک ہونے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی ان سے ایک قدم نکلنے کی کوشش کرتا ہے‘ اس میں وسائل کی دستیابی و عدم دستیابی کا کردار نہیں‘ اگر ایک قبیلہ شمشیر زنی کو ہی اپنی تہذیب تصور کر لے تو اس کے آئندگان میں اس تخریب کاری کی خواہش کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے۔ مغربی تہذیب اپنے عروج کے زمانے میں غیر معذرت خواہانہ طور پر عقلیت پسند اور نتیجتاً نسل پرست اور ظالم رہی ہے‘ اس کے جواب میں کیا ہم اس اعتماد کے ساتھ غیر معذرت خواہانہ طور پر مسلمان یا فقط پاکستانی یا کچھ بھی ہیں؟ اس تہذیبی یکجہتی کا ایک بڑا وسیلہ تو تعلیم ہے‘ ہمارا بنیادی المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کلاسیک زبان اور کلاسیک تعلیمی نظام سے منسلک نہیں ہیں اور نہ اپنے تئیں اسے ابھی پیدا کر پائے ہیں‘ جو کٹا پھٹا مل گیا اسے ہی پیوند لگا کر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو نہ اپنی ضرورت پوری کرتا ہے نہ دنیا میں کسی کام آتا ہے‘ یہ نظام چونکہ ماضی کی واضح تصویر کشی نہیں کرتا اس لیے مستقبل کا تصور پیدا کرنے سے بھی قاصر ہے‘ ہمارا فرد اپنے آپ اور خاندان سے آگے نظر بڑھانے سے قاصر ہے کیونکہ اس کا کینوس ہی محدود ہے‘ اس مسئلے کی دوسری وجہ نفسیاتی ہے‘ کسی زندہ اور متحرک رشتے میں بندھا نہ ہونے کے سبب معاشرہ اخلاقی طور پر بے دلی کا شکار ہے‘ آپ اپنے ارد گرد دیکھ لیجئے آپ بچوں کو کیا بتا رہیں؟ یہ’’پاکستان‘‘ ہے، یہاں سب ایسے ہی چلتا ہے۔ بھارت بہت آگے چلا گیا، فلاں نے بہت ترقی کر لی وغیرہ وغیرہ جبکہ ہم پھسڈی ہیں کیونکہ ہم ہیں ہی ایسے، یہاں باریک پہلو یہ ہے کہ زور وجوہات پر نہیں دیا جاتا کہ ہمارے ان مسائل کی وجہ کیا ہے بلکہ آرام سے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ پاکستان ہے، گویا ہمیں ایسا ہی ہونا تھا‘ یہ برا منظر ایک ایسے انسان کے لیے جس کی رہنمائی کے لیے نہ کوئی تہذیب موجود ہے نہ تعلیمی نظام، کیا نتائج پیدا کرے گا؟ چنانچہ اقبال کے بقول (آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں، ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام) کوئی تعلیمی و تہذیبی رشتہ موجود نہیں جو دل میں تخلیق آرزو کا باعث بنے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا راہی خواب دیکھ بھی لے تو وہ ان نامساعد حالات میں خود کو کہاں تک کھینچ لے جائے گا جہاں تمام عوامل اس کے خلاف ہوں۔ آخر کار کسی دانا نے کہا تھا کہ آدمی اپنا مقدر خود بناتا ہے لیکن اس کی تشکیل کے لیے حالات اسے اپنی مرضی سے میسر نہیں آتے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ بہت سی وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ بحیثیت قوم اور معاشرہ ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہے کہ ہم نے بڑے لوگ پیدا کرنے ہیں‘ ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات ہی نہیں ہیں کہ ایسی پالیسی بنائیں کہ بڑے لوگ پیدا ہوں، بڑے ذہن تخلیق ہوں، بڑی شخصیت تشکیل پائے، بڑے کارنامے انجام دیں۔ وہ یہ ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ کسی قوم کو بڑے لوگوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے‘ جب ہر معاملہ عالمی اداروں کے مشورہ سے طے کرنے کی مجبوری بلکہ عادت پڑ جائے تو تخلیقی صلاحیت اور تشکیلی قیادت کا فقدان ہی پیدا ہوتا ہے قیادت نہیں‘ ہمارا نظام تعلیم ایک ایسا نظام ہے جہاں فقط مشین کے پرزے تیار ہوتے ہیں مشینیں نہیں‘ بڑے بڑے نام نہاد تعلیمی ادارے بھی ایسے گریجویٹ تیار کرتے ہیں جن کی ترجیحات فقط کسی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ ہوتا ہے‘ ذاتی کاروبار کرکے معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل نہیں‘ ہمارا تعلیمی نظام جس میں اردو میڈیم، دیسی انگریزی میڈیم، انگریزی میڈیم، بدیسی انگریزی میڈیم، دینی مدارس کے فرقہ ورانہ نظام اور جدید و دینی تعلیم کا نام نہاد ملغوبہ اقرا نظام جب اس قدر گنجلک تعلیمی نظام ہوں گے تو بڑے لوگ تو کیا ہوں گے بلکہ فقط بڑی کنفیوز قوم پیدا ہوگی‘ جس ملک میں حکومت کاروبار بن جائے اور حکمران کاروباری، جہاں سیاست سرمایہ کاری ہو اور نمائندگی منافع بخش عمل وہاں بڑے لوگ نہیں فقط بڑے حرام خور اور منافع خور ہی پیدا ہوتے ہیں‘ جہاں قیادت مقامی نہ ہو اور قومی بھی نہ ہو وہاں بڑے لوگ نہیں فقط بڑے منافق پیدا ہوتے ہیں جو دم تو قوم کا بھرتے ہیں اور خون بھی قوم کا ہی نچوڑتے ہیں‘ جو قیادت تو قوم کی کرتے ہیں لیکن سرمایہ کاری باہر کرتے ہیں جو نام تو ملک کا لیتے ہیں لیکن کام باہر کرتے ہیں جہاں ملکی دفاعی ادارے قوم کو تو حب الوطنی کا درس دیتے ہوں لیکن دفاع کو منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا ہو اور دفاعی قیادت ملک سے باہر جائدادیں بناکر خاندان سمیت منتقل ہوجاتی ہو جہاں ملک کا دفاعی نظام ایک طاقتور اور پر تعیش زندگی کا حصول بن جائے‘ وہاں بڑے لوگ نہیں فقط بڑے طاقتور طبقے جنم لیتے ہیں‘ جو یہ سمجھتے ہیں کہ کمزور طبقوں پر حکمرانی ان کا پیدائشی حق ہے‘ اسی لیے وہاں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے‘ صرف بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید نواز الہدی نے کہا کہ بنیادی طور پر انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے‘ عمومی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر انسان میں اس کے فکر و افعال کے حوالے سے ایک مکمل ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے‘ کچھ کا جینیاتی مسائل کے سبب افعال کے حوالے سے صحیح طریقے سے اپنے والدین سے منتقل نہیں ہو پاتا مگر اس کے باوجود Personal development کے ڈیٹا پر کام کرنے والے لوگ اس بات پر یکسو ہیں کہ 90 فیصد لوگوں میں یکساں ڈیٹا پایا جاتا ہے‘ دنیا بھر میں منفرد کام کرنے والوں کی علمی صلاحیتوں کا مذہب وغیرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے وجود میں موجود ڈیٹا کو کس حد تک استعمال کیا۔ تاریخی لحاظ سے معاشروں کا مطالعہ کریں تو وہی معاشرے نمایاں شخصیات دنیا کو دیتے ہیں جوکہ ذہنی و طبعی غلامی سے آزاد ہوتے ہیں۔ creativity کا تعلق ایک انسان کے perspective سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ذہنی و طبعی غلامی میں مبتلا معاشرہ perspective کے بجائے perception کو پروان چڑھاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ذہنی غلامی میں مبتلا معاشرہ ہے جس کے ارباب اختیار perception پر زندگی گزارتے ہیں اورperspective پر جینے والوں کی قدر نہیں کرتے انہیں demotivate کرتے ہیں اس لیے اس معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کو explore کرنے کے مواقع دستیاب نہیں جس کی وجہ سے دہائیوں سے پاکستان میں نمایاں اور منفرد کارکردگی دکھانے والے لوگ ہمیں کسی شعبے میں پیدا ہوتے نہ نظر آئے اور نہ ہی مستقبل میں نظر آئیں گے جب تک ہم غلامی کے نظام سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیں جبکہ پاکستان دنیا بھر میں منفی سر گرمیوں میں نامور لوگ پیدا کرنے میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے، یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایسی گراں قدر شخصیات پیدا ہوئی ہیں جوکہ ووٹ خریدنے کے لیے لوگوں کو غربت کی چکی میں پیس کر بعد میں بیرونی قرضوں سے انہیں ماہانہ قلیل وظیفہ دیتی ہیں تاکہ انہیں خوشحالی ٹرین میں بٹھانے کے لیے بطور ٹکٹ ان کے ووٹ اپنے حلقے کے بیگس میں وصول کرسکیں۔ دنیا کے سامنے ہر شعبے میں منفی سر گرمیوں کے حوالے سے عظیم لوگوں کی فہرست میں پاکستان کا یہ بھی ایک نمایاں اعزاز ہے۔