اسلام کی تعمیرو ترقی میں نوجوانوں کا کردار

128

تیسری طرف آج کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑے بڑے چیلنجز ہیں ان چیلنجز کا ادراک کرنا اور ان مسائل سے آج کے نوجوانوں کو نکالنا اصل مسئلہ ہے اور ان نوجوانوں کو اسلاف کے راستہ پر ڈالنا اصل مسئلہ اور چیلنج ہے۔ مثلاً حال ہی میں ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے ایک کتاب لکھی ’’Have you discovered its real beauty‘‘ تو اس میں وہ ایک نوجوان کا تذکرہ کرتے ہیں کہ میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے تو وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا کہ زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کا بنیادی مقصد Eat, Drink & be Happy ہے کہ کھائو پیو اور خوش رہو، یعنی زندگی کو انجوائے کرو۔ ایسے نوجوانوں کا مقصد تو صرف یہی رہ جاتا ہے کہ زندگی میں اچھی تعلیم حاصل کرنی ہے، جاب یا بزنس کرنا ہے اور خوشحال زندگی گزارنی ہے لیکن اس نوجوان کو اصل مقصد زندگی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ کی تخلیق اللہ نے اس لیے کی ہے کہ آپ زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں ہم سب کی تخلیق بندگی ربّ کے لیے ہے اور اللہ ربّ العزت یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد کون اچھا عمل کرتا ہے اسی وجہ سے انسان کی آزمائش ہے، اسی طرح آج کا نوجوان کیریئرازم کے پیچھے لگا ہوا ہے اس کیریئرازم کی وجہ سے اپنے حقیقی رشتوں ماں، باپ، بہن، بھائی، خالہ، پھوپھی اور پڑوسی سب لوگوں سے آج کا نوجوان کٹ گیا ہے حالانکہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرنا، آج کا نوجوان معاشرتی مسائل سے دوچار ہو چکا ہے، آج کا نوجوان بے روزگار ہو چکا ہے، اعلیٰ اخلاق و کردار، اعلیٰ تعلیم اور بلند فکر سے عاری ہو چکا ہے۔ آج کا نوجوان شادی کے مسائل سے دوچار ہے کیونکہ ماں باپ، اساتذہ اور علماء آج کے نوجوانوں کی وہ تربیت نہیں کر سکے کہ جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ اخلاقیات کا مالک بن سکے اس لیے آج کے نوجوانوں کو اسلاف کے کارناموں سے جوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے فکری تربیت کے ادارے ماں، گھر کا ماحول، علماء، اساتذہ سب اپنا اپنا کردار ادا کریں، اسی طرح آج کا نوجوان امت مسلمہ کے تصور سے عاری ہو چکا ہے اس کو دوست اور دشمن کی پہچان ہی نہیں ہے کہ اصل میں ہمارا دشمن کون ہے اور ہمارا دوست کون ہے، نبی اکرم ؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ: ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ کہ کفار سارے کے سارے ملت واحدہ ہیں تو کیا امت مسلمہ ایک امت نہیں ہے اس لیے کشمیر، فلسطین، شیشان، برما، افغانستان یہ سب امت مسلمہ کے ممالک ہیں ہم سب ایک جسد کی مانند ہیں لیکن دیکھیے آج مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں کے نوجوان غزہ اور فلسطین پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہماری امت مسلمہ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی محافل چل رہی ہیں یہ ستم ظریفی ہے اس پر ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے۔ آج کا نوجوان ان چیلنجز سے اس لیے دوچار ہے کہ ہمارے ملک میں آزاد سوشل میڈیا پر جنسی خواہشات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا نوجوان خوف، ذہنی دبائو، ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں غصہ عام ہو چکا ہے وہ جاب اور کاروبار کرنے کے قابل نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نظام تعلیم نے بھی نوجوان نسل کو برباد کر دیا ہے ہمارے ملک میں تین طرح کے نظام تعلیم چل رہے ہیں ایک طرف مدارس، دوسری طرف سرکاری اسکول کالجز اور تیسری طرف ایچیسن کالجز، سٹی اور بیکن اسکول و کالجز کا نظام چل رہا ہے اور پھر ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں جو نصاب تعلیم پڑھایا جاتا ہے اس نے ہماری نوجوان نسل کو اللہ اور اس کے رسول ؐ اور اسلاف کے کارناموں سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ اور پھر خصوصاً مخلوط نظام تعلیم نے تو ہماری جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے۔

ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں، ہم امت محمد ؐ کے فرد ہیں اسلامی تحریکات سے وابستہ ہیں، ہمارے ملک کا آئین اور دستور جس میں قرارداد مقاصد کو پاس کیا گیا، ہم نے اپنے دستور میں طے کیا ہے کہ ہم اس ملک میں کوئی قانون ایسا نہیں بنائیں گے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو گا، ہم نے طے کیا کہ ہم ملک پاکستان کو امت مسلمہ کا مرکز اور اسلام کا مرکز اور گہوارہ بنائیں گے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہمارا ملک قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان اور علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات کے مطابق چلے گا۔ ہم نے مولانا مودودی ؒ سے نشری تقاریر کروائیں کہ وہ ہمیں بتائیں گے ہم اس ملک کے نظام تعلیم، نظام سیاسیات اور نظام معیشت کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اپنی قوم کو تعلیم صحت اور روزگار فراہم کریں گے، ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اپنے نونہال بچوں کو دین اسلام، قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ان کے اخلاق و کردار کو سنواریں گے۔ اس معاملے میں سب سے پہلے ماں باپ کو غور و فکر کرنا چاہیے اور پھر تعلیمی اداروں کو سوچنا چاہیے پھر آئمہ مساجد اور علماء کرام کو سوچنا چاہیے پھر ٹین ایجز کے دوستوں یعنی حلقہ یاراں اور بزم دوستاں کو سوچنا چاہیے اور پھر ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کو سوچنا چاہیے اور سب سے آخر میں ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کی کیسی تربیت کر رہے ہیں دراصل یہ سب فکری تربیت کے ادارے ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں کی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو کیا اخلاق و کردار دے رہے ہیں، آج ہمارے ملک کے تمام ادارے عدلیہ، الیکشن کمیشن، فوج، سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، کابینہ، صدر اور وزیراعظم کن اخلاق عالیہ سے متصف ہیں وہ جن اخلاق و کردار کے مالک ہوں گے قوم بھی ان سے وہی کچھ سیکھے گی۔ آخر میں، میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے اپیل کروں گا کہ آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی ؒ کی تجدید احیائے دین، خلافت ملوکیت، مولانا گوہررحمانؒ کی اسلامی سیاست اور مولانا سید معروف شیرازیؒ کی اسلام کا دستوری نظام اور فی ظلال القرآن اور فی ظلال الحدیث کا ضرور مطالعہ کریں یہ وہ کتب ہیں جو آپ کو اور ہمیں اپنا نظریہ اور مقصد زندگی سمجھائیں گی۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔