نیشنل لیبر فیڈریشن ملتان کے زیر اہتمام ایک روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی۔ اس ورک شاپ سے نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، ڈاکٹر صفدر ہاشمی،پروفیسر اصغر سلیمی،عبدالرحمان ہاشمی،ملک بشیر اور دیگر مزدور رہنماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ اس وقت مزدور اور کسان ہی نہیں پاکستان کے غریب عوام بدترین قسم کے ظالمانہ نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ نظام ایک ٹرائیکا پر کھڑا ہے جس میں جاگیردار، سرمایہ دار اور افسر شاہی شامل ہیں 77 سالوں سے اس نظام نے پاکستان کے غریب عوام کو ظلم، ناانصافی، غربت، مہنگائی، لاقانونیت کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور کسان غریب عوام اس ملک کی خواتین اور نوجوان مل کر اس ظالمانہ اور بوسیدہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مزدوروں کی صورتحال پہلے ہی دگرگوں ہے ٹریڈ یونین کا حق ساڑھے 7 کروڑ مزدوروں میں سے صرف ایک فیصد کو حاصل ہے اور سماجی تحفظ اور بہبود کے دائرہ میں ایک فیصد سے بھی کم مزدور ہیں۔ 6کروڑ دیہاڑی دار مزدور لیبر قوانین اور سماجی تحفظ سے مکمل محروم ہیں اور ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کو نام نہاد اور غیر قانونی ٹھیکیداری نظام کے ذریعے دیہاڑی دار مزدوروں جیسی صورتحال کا سامنا ہے انہیں ٹریڈ یونین کے حق اور سوشل سیکورٹی سے محروم کیا جا رہا ہے ایسے میں آئی ایل او کی چھتری کے نیچے حکومت پنجاب اور حکومت سندھ نے پنجاب لیبر کوڈ اور سندھ لیبر کوڈ کے نام سے جو قوانین متعارف کیے ہیں ان میں مزدوروں سے ان کے تمام حقوق اور مراعات چھین لیے گئے ہیں۔ فیکٹری ایکٹ،پیمنٹ آف ویجزایکٹ، اسٹینڈنگ آرڈر آرڈیننس،ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایکٹ اور آئی آر اے کو یکجا کر کے ان تمام قوانین میں سے مزدوروں کو حاصل حقوق اور مراعات کو ختم کر دیا گیا ہے مزدوروں کو بیگار کیمپ میں دھکیلنے کے لیے ٹھیکیداری نظام کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دی گئی ہے اجتماعی سوداکاری کے حق کو غصب کر لیا گیا ہے۔ مستقل ملازمتوں کا حصول ختم کر دیا گیا ہے اس قانون کے ذریعے مالکان کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ وہ کھڑے کھڑے کسی بھی مزدور کو نوکری سے نکال سکتے ہیں اور لیبر کورٹ کے ذریعے جو ریلیف ملنے کا امکان تھا اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کردار کو بڑھا دیا گیا ہے جو پہلے ہی مزدوروں کے قانونی حقوق و مراعات چھیننے کی شناخت رکھتا ہے۔ متعارف کردہ یہ قوانین دستور پاکستان میں دیے گئے انسانی حقوق کے بھی خلاف ہیں۔ اس موقع پر نیشنل لیبر فیڈریشن نے تمام فیڈریشنوں اور ٹریڈ یونین کو متحد کر کے ان قوانین کے خلاف جدوجہد کا علم بلند کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف شہروں میں سیمینار اور لیکچرز کے ذریعے ان ظالمانہ قوانین کو بے نقاب کیا جا رہا ہے اور مزدور تحریک کو منظم اور متحد کر کے ایک بڑی جدوجہد کی تیاری کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم پاکستان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کوسہ فریقی لیبر کانفرنس کی تجویز دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ایک سنجیدہ سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کی جائے اور اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی سنجیدہ نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر لائحہ عمل طے کریں اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائے، اس کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ظالمانہ شکنجے سے نکلنا ہوگا۔ سودی نظام جو کہ پاکستان کی معیشت کی تباہی ہے کو خیرباد کہنا ہوگا اور اشرافیہ کی عیاشیاں اور ان کو حاصل ناجائز مراعات کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دستور پاکستان کے مطابق مزدوروں کو ٹریڈ یونین کا حق دیا جائے، ملازمتوں کا تحفظ دیا جائے، سماجی بہبود اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، ہیلتھ اینڈ سیفٹی قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے، ان فارمل سیکٹر کے دیہاڑی دار مزدوروں کو قانونی حق اور سماجی تحفظ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام ٹریڈ یونینز سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائیں متحد اور منظم ہو کر ظلم کے اس سفاک نظام کے خلاف جدوجہد کریں انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان زرعی اور صنعتی ترقی کرے گا روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ظلم اور نا انصافی کی تمام شکلوں کو مٹایا جائے گا۔