بجلی ٹیرف چارجز میں اضافہ ،صنعتوں کی بندش ،بے روزگاری کاطوفان ،عوام کہا ں جائیں ؟

221

معیشت تب پھلتی پھولتی ہے جب ماحول سازگار اورسرمایہ کاری ہو رہی ہو، روپیہ گردش میں تیزی آجاتی ہے ۔ معاشی عمل بحال ہوتا ہے تو کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس خود بخود بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر مقصد عوام کی رگوں سے ٹیکس نکال نکال کر صرف اعداد و شمار کا میزانیہ بہتر کرنا ہو تو یہ وہ سراب ہے جو سب کچھ لے ڈوبے گا۔تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس دگنا کر کے پریشانی اور تناؤ میں تو اضافہ کیا جا سکتا ہے اس سے معیشت نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اسی طرح ایکسپورٹ پر ٹیکس میں اس طرح کا خوف ناک اضافہ کر کے معیشت کو ادھیڑا تو جا سکتا ہے اس کی رفو گری نہیں ہو سکتی۔ ایسے اقدامات کاغذات کا پیٹ بھرنے اور کارروائی ڈال کر آئی ایم ایف کے حضور پیش کرنے کے کام تو آ سکتے ہیں لیکن اس سے معیشت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ ہماری نام نہاد حکومت ایسا ہی کارنامہ کر نے کا پلان تیار کر رہے ہے۔وہ فرانس کی ملکہ کیا کہہ رہی تھی کہ اگر عوام کو ڈبل روٹی نہیں مل رہی ہے تو کیک کھا لیں لیکن چند ہی دنوں کے وہ ملکہ کیک اور ڈبل روٹی دونوں کو کھانے سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دی گئی

پاکستان کے بدترین معاشی بحران کے دوران، کراچی میں مقیم ٹیکسٹائل یونٹ نے اپنے دروازے کوتالالگانے کا اعلان کررہی ہے، جو ملک کی برآمدی صنعت میں ایک بڑے خاتمے کا اشارہ ہے کیونکہ دیگر کمپنیاں بھی اسی طرح کی خوش قسمتی کے لیے تیار ہیں اوربرآمد کنندگان اس جانب واضح اشارہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔1 جولائی 2024 کو جاری کردہ ایک ہینڈ آ ٹ میں ناز ٹیکسٹائلز (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے اپنے کارکنوں کو کہیں اور ملازمتیں تلاش کرنے کے لیے مطلع کر دیا ہے کیونکہ کمپنی کو آرڈرز کی کمی کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا ہے اوراس نے کارکنوں کو بتایاگیا ہے کہ ”31 جولائی فیکٹری میں آپ کی ملازمت کا آخری دن ہوگا اور آپ کے تمام واجبات 10 اگست تک ادا کردیئے جائیں گے۔فیکٹری کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے آل ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر ٹیکسوں، ایندھن، بجلی اور گیس کے زیادہ نرخوں نے صنعتی پیداوار کو کم کر دیا ہے

یہ اطلاع آفاتِ ناگہانی ہے کہ صنعتی یونٹس ملک میں معاشی افراتفری کا شکار ہونے جا رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ایک بڑی تصویر اگلے چھ ماہ کے اندر برآمدات میں کمی کے عین مطابق منظر نامے کا اشارہ دے گی۔ا س سلسلے میں جسارت کی اطلا ع ہے کہ درجنوں صنعتیں اپنے کام بند کرنے جا رہی ہیں۔صنعتی مالکان کاکہنا ہے کہ بجٹ سے پہلے کے برآمدات کے آرڈرز مکمل کر نے بعد وہ فیصلہ کریں گئے کہ ان کا آئندہ کا پروگرام کیا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ، برآمد کنندگان سمیت کاروباری برادری سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔ ملک میںاب ایسا محسوس ہو تا ہے کہ بدترین قسم کی حکومت ہے جسے اپنے ناقص معاشی فیصلوں کے ساتھ ملک کو ناگزیر بحران کی طرف لے جانے کے لیے پر اسرار قوت کام کر رہی ہے۔ ٹیکس کے بوجھ نے صنعت کو پورے پیمانے پر چلانے کے لیے کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ پیداوار کم ہو رہی ہے، حکومت نے برآمدات کے شعبوں پر 42 فیصد تک بھاری ٹیکس عائد کیا ہے لیکن رقم کی واپسی کے طریقہ کار سے گریز کیا ہے

دوسری جانب جب ناز ٹیکسٹائل سے رابطہ کیا گیا تو ان کے مینیجر فہیم نے تصدیق کی کہ ہینڈ آؤ ٹ کارکنوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن کے بند ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ یہ 31 جولائی کے بعد کام جاری رکھے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کمپنی نے اپنے دو جنرل منیجرز میں سے ایک کو ہٹا دیا ہے اور ہینڈ آ ؤٹ اس حوالے سے صرف ایک اندرونی نوٹس تھا، کمپنی کا اپنا آپریشن بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ہینڈ آ ؤٹ کے مطابق کمپنی نے اپنے تمام عملے کو متبادل ملازمتیں تلاش کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے، یکم سے 31 جولائی تک ایک ماہ کی مدت بنتی ہے جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ملازمین نئی آسامیوں کے لیے کسی بھی ممکنہ مشکلات سے بچ سکیں۔آپریشنز کو برقرار رکھنے کے لیے برسوں کی ٹھوس کوششوں کے بعد کمپنی نے افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں جاری رکھنا اب قابل عمل نہیں ہے۔کمپنی کو آرڈرز کی کمی اور پیداواری لاگت کے دوگنا ہونے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کافی مالی نقصان ہوا ہے۔ ماضی میں کمپنی کی مسلسل خراب کارکردگی کے باوجود، موجودہ حالات ایک اہم مندی کا باعث بنے ہیں۔

بجلی کے بنیادی ٹیرف اورفکسڈ چارجزمیں اضافہ ناقابل برداشت ہے۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے عوام کا جینا اورتاجروں و صنعتکاروں کا کاروبارکا حق چھین رہا ہے۔ جب معیشت ہی نہیں چلے گی تو حکومت ٹیکس کیسے جمع کرے گی۔ کاروباربند، بے روزگاری میں اضافہ، مہنگائی ناقابل برداشت اورٹیکس اہداف بری طرح ناکام ہوجائیں گے۔ حکومت نے اس دفعہ تاجروں اور صنعت کاروں سے بجٹ کے موقع پر مشاورت بھی نہیں کی جس سے خدانخواستہ معاشی تباہی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ پیٹرولیم ڈیلرز ہڑتال کر چکے ہیں جبکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز، آلٹرنیٹو میڈیسن، ایکسپورٹرز، جیمز اینڈ جیولری، تنخواہ یافتہ افراد، لبریکنٹ انڈسٹری، کنسٹرکشن، رییل سٹیٹ اور دیگر کاروباری شعبے سراپا احتجاج کر نے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عوام مہنگائی سے تنگ آ چکے ہیں، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے لیے عوام کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ عوام پردباؤ بڑھ رہا ہے جبکہ جن سے ٹیکس وصول کرنا چائیے انکی طرف دیکھا بھی نہیں جا رہا ہے جو بدترین صورت ہے۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری، ناکام سرکاری اداروں کوکھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اس لئے انکی عیاشی کا سارا ملبہ ٹیکس ادا کرنے والوں اورعوام پرگر رہا ہے۔ حکومت نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 5.72 روپے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ بنیادی ٹیرف 48 روپے 84 پیسے تک مقررکردیا ہے جوایڈجسٹمنٹس اور دیگرٹیکسزملاکرفی یونٹ 65 روپے سے بڑھ جائے گا جس سے بجلی صارفین پرتقریبا 600 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ مختلف کیٹیگریزکے لیے بجلی کے فکسڈ چارجزمیں بھی اضافہ کی منظوری دے دی ہے۔ کمرشل صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجزمیں 150 فیصد اضافہ منظورکیا گیا ہے جس کے بعد کمرشل صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 500 سے بڑھ کر 1250 روپے ہوجائیں گے۔ دوسری طرف صنعتی صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجزمیں اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد صنعتی صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز 440 سے بڑھ کر 1250 روپے ہوجائیں گے۔ اسی طرح زرعی ٹیوب ویل صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجزمیں 100 فیصد اضافہ منظورکیا گیا ہے اوریہ 200 سے بڑھ کر 400 روپے ہوجائیں گے۔

اتحادی حکمرانی نے ”برآمد سہولت ا سکیم” کو بھی ختم کر دیا ہے۔ حکومتوں نے MB، DTRE اور EOU سمیت تین مختلف معاون پروگراموں کو EFS سے تبدیل کیا، جس سے برآمدات کے شعبے مکمل طور پر غیر محفوظ ہو گئے ہیں، اس سے خدشہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ریفنڈز کا ایک بہت بڑا بیک لاگ برآمد کنندگان کے مالیات کو کم کر دے گا۔”نارمل ٹیکس رجیم میں منافع پر 10 فیصد سپر ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے، یعنی ٹیکس کی شرح 29 فیصد تک پہنچ جاتی ہے جس میں 10 فیصد اضافے کے ساتھ کل 39 فیصد ٹیکس ہوتا ہے۔۔ اس طرح کل 41 فیصد ٹیکس جس میں 2 فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ شامل ہے۔”بجٹ ٹیکس لگانے کے منصوبوں نے RTOs کے لیے ایک بڑی خوشی کی ہے، کیونکہ حکام نے اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے اسراف پارٹیوں کا انعقاد کیا۔ صنعت اور دیگر کاروبار اپنے تاریخی بد ترین صورتحال سے دو چار ہیں جبکہ ٹیکس افسران اسے ہیرا پھیری کے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں،یہ بجٹ تاریخی طور پر یاد رکھا جائے گا، فیصلہ واپس لینے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اعتماد ختم ہو گیا ہے، یہ تمام سپلائی چین میں ٹیکسٹائل کے کھلاڑیوں کے لیے ختم ہو گیا ہے۔حکمران اتحاد کو متنبہ کیا کہ ٹیکس لگانے کے منصوبے برآمدات کے شعبوں کو تباہ کر دیں گے اور اس کے نتیجے میں درآمدات کو بڑھانے میں مدد ملے گی، جس سے ملک تیزی سے تجارتی ملک بننے کی طرف دوڑ رہا ہے۔

وفاقی بجٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی مہنگائی کے آفٹر شاکس آنا شروع ہو گئے ہیں۔جی ایس ٹی کا اطلاق ہونے کے بعد ٹیٹرا پیک، خشک دودھ،بیکری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ، چاول کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مارکیٹ رپورٹ کے مطابق مختلف کیٹگریز کے خشک دودھ کی قیمتوں میں 100سے لے کر 300روپے تک اضافہ ہو گیا ہے۔ٹیٹرا پیک دودھ کوارٹر کی قیمت20روپے اضافے سے 95روپے ، ایک لیٹر دودھ 75روپے اضافے سی370روپے جبکہ ڈیڑھ لیٹر ٹیٹراپیک دودھ کی قیمت105روپے اضافے سی525روپے ہو گئی۔ اسی طرح بیکری مصنوعات بنانے والی کمپنیوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس میں بن 5روپے اضافے سے 50روپے ، شیر مال 5روپے اضافے سی65روپے ،میڈیم ڈبل روٹی 10روپے اضافے سے 150روپے ،فروٹ کیک 10روپے اضافے سی190روپے جبکہ سادہ کیک کی قیمت10روپے اضافے سی175روپے ہو گئی۔ مارکیٹ میں چاول کی قیمت میں پچیس کلو بیگ کی قیمت800روپے اضافے سی5900روپے تک پہنچ گئی۔اس سلسلے کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں آخرکہیں نہیں ہے ۔ ملک کی عوام اس بات کا علم نہیں کہ وہ جس بجلی کو استعمال کر رہا ہے اس اضافہ کا خا تمہ کب اور کہاں ہو گا ۔بجلی پر عالمی اضافہ کا لیبل لگا کر اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن گیس تو ملکی پیداوار ہے اس کے بلز میں اضافہ کیوں کیا جاررہا ہے ۔ان تما م باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ حکمران جو پاکستان کے اقتدار پر مسلط کر دیا گیا ہے وہ پاکستان ہیں اور نہ ان کو کسی درجے میں مسلمان کہا جاسکتا ہے ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے “ان حکمرانوں نے کلمہ بڑھ رکھا ہے اور بس اور ان کے سامنے عوام بے بس ہے۔