جس نے بھی کلمہ پڑھ کر ربّ کی کبریائی اور نبی کریمؐ کی رسالت کا اقرار کیا ہے وہ داعی ہے کہ لوگوں کو راہ حق کی طرف دعوت دے، یہ اُس پر فرض ہے کہ وہ تن، من، دھن سے خالصتاً للہ یہ ذمے داری ادا کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ پاکستان اُسی کلمہ پر معرض وجود میں آیا جس کو پڑھنے سے مسلم بنتا ہے، سو جس طرح اپنے جسم کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلم کیٹیلاگ (شریعت) کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی راہ نجات ہے یوں ہی مملکت خداداد کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنا بھی سب کی ذمے داری ہے۔ اس لیے ’’داعی حق‘‘ کو اُس سنت پر اور اُس راہ پر چلنا ہوگا جو نبی اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ ہیں۔ آپؐ کو جب ربّ نے حکم دیا کہ دعوت دین کو عام کرو اور توحید ربانی کی طرف بلائو تو آپ نے دعوت کا آغاز ربّ کے اُس حکم پر ’’تجھے جو کچھ حکم دیا گیا ہے اُسے کھول کر سنا دے‘‘ کی تعمیل یوں کی کہ آپؐ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قبائل قریش کو پکارا، آواز سن کر لوگ جوق در جوق چلے آئے، صادق و امین کی پکار پر آپؐ نے سوال کیا ’’اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بھاری لشکر تم پر حملہ کرنے آرہا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرلو گے، سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ہم نے تمہیں ہمیشہ سچ ہی بولتے سنا ہے، یعنی داعی کا کام جب ہی پُر اثر اور تیز گام ہوگا کہ جب وہ سچ بولنے اور جھوٹ سے اجتناب کرنے والا ہو۔ اور لوگوں کو یہ پختہ یقین ہو کہ یہ جھوٹی بات نہیں کرتا اور جھوٹے وعدے سے پاک قائد ہے۔ اور ایسا کہ دشمن بھی یوں کہیں جیسے کہ آپ کے ابوجہل جیسا جانی دشمن بھی نبی کریمؐ کے متعلق یہ کہہ اُٹھا ’’محمدؐ میں تمہیں جھوٹا تو نہیں کہتا لیکن تمہارے دعوے کے دلائل کو صحیح نہیں سمجھتا‘‘۔
قریش مکہ نے نعوذباللہ مجنوں کہا، شاعر کہا، کاہن کہا لیکن کاذب نہیں کہا، جھوٹ گناہوں کی ماں ہے جو دعوت کو مسخ کرتی ہے، اللہ نے قرآن میں جھوٹے پر لعنت بھیجی ہے جو لعنت زدہ ہو وہ کب بار آور ہوگا، کب دلوں کو مسخر کرے گا۔ اللہ کے رسول نے کبھی بھولے سے جھوٹ نہیں بولا اور یوں سچائی کی بہار نے گلستان سجادیا۔ فکری تبدیلی جو سچائی کا پیکر تھی نے جان نثار رفقا وہ تیار کردیے جو ایمان و یقین سے آراستہ تھے تو پھر ایک فرد کی دعوت نے اس مومنین کا لشکر بنادیا جس نے قول صادق کی مثال قائم کردی کہ تم ہی غالب آئو گے اگر تم مومن ہو گے، اللہ پر ایمان رسالت کی تصدیق، شرعی تعلیمات پر عمل نے مومنین کی ایسی ٹیم تیار کی جو صحابہ کرام کہلائے اور اللہ اُن سے راضی اور وہ اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوگئے تو پھر دنیا پر اُن کا غلبہ ہوگیا اور ’’دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا۔ سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی‘‘۔ سچائی، ایمان کی روشن دلیل ہے جو سعید روحوں میں ایقان پیدا کرتی ہے اور ان میں ایسی روح پھونکتی ہے کہ وہ شہادت کی موت کے متمنی بن کر رہ جائیں۔ مگر افسوس صد افسوس یہ ہے کہ سچ عنقا ہوتا جارہا ہے۔ ریاست، سیاست میں جھوٹ نے غلبہ پالیا ہے اور اب ایک طبقہ ہے وہ جو کہہ رہا ہے کہ یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر، یوں جھوٹ کے طوق نے حکمران وقت کو ایسا جکڑ لیا کہ اک فرماں رواں نے کہہ دیا کہ ’’وعدہ قرآن حدیث نہیں ہوتے، وعدہ جس کی قیامت میں پوچھ ہوگی‘‘ وعدہ جھوٹا ہو تو ڈبل سزاوار، کسی نے خوب کہا کہ ’’سچ کا بول بالا جھوٹے کا منہ کالا‘‘۔ جب سچ کا علم بلند ہوگا اور ہر ذی نفس کہہ اُٹھے گا کہ یہ جھوٹے نہیں ہیں تو انقلاب اسلامی کا نقیب بجے گا اور پوری دنیا زیر نگوں ہوجائے گی ان شاء اللہ۔