شہر بھر میں رہزن دندناتے پھررہے ہیں جو آئے روز چند ہزار کی خاطر نوجوانوں، بزرگوں اور گھر کے کفیل کی جان تک لینے سے نہیں کتراتے۔ فورسز اور سیکورٹی کے ادارے انہیں کنٹرول کرنے میں اب تک ناکام نظرآتے ہیں۔ ایک طرف تو امن وامان کی صورتحال ہے دوسری جانب رہی سہی کسر خطرناک ندی نالوں، کھلے ہوئے مین ہولوں نے پوری کردی ہے۔ کتنی ہی مائوں کے لخت جگر، گھر کے واحد کفیل، بہنوں کے سر کے سائے، والد کی امیدوں کے مرکز ان کھلے گٹر اور خطرناک نالوں کی نذر ہوگئے۔ حکمرانوں اور صاحب امر کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے اوپر اللہ ہے وہ ایک دن حساب کے لیے سب کو جمع کرے گا، اس دن جتنی مائوں کے دل کے ٹکڑے آپ لوگوں کی وجہ سے جان سے گئے ہیں یہ شہر کراچی کی سڑکیں اور اس کے اندر کے گڑھے روزانہ کتنی مائوں کی گود خالی کرتے ہیں، عورتوں کو بیوہ کرتے اور بچوں کو یتیم کرتے ہیں، آپ کا فرض بنتا ہے کہ ان ٹھیکیداروں سے پوچھیں کہ اتنا ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں کہ سڑکیں، گٹر، نالے کچھ دن کے بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیںہے۔ ظاہر ہے آپ پوچھیں گے بھی کیسے؟ سب مل کر جو کھاتے ہیں اس میں آپ کا بھی تو حصہ ہوتا ہوگا۔ شہریوں کی جانیں جاتی ہیں تو جائیں لیکن یاد رکھیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ربّ العالمین نے جو ڈھیل دی ہے وہ کسنا بھی جانتا ہے جب آپ کے بچے کا یہی حال ہوگا اس وقت دیر ہوچکی ہوگی۔ میں نے اسلام آباد کی سڑکیں دیکھی ہیں اچھی سڑکیں اس کو توڑ کر اور اچھا بنایا جاتا ہے۔ پورے کراچی کے شہریوں کی طرف سے اپیل ہے کہ سڑکیں اور نالے اور گٹر صحیح کرائیں۔ انسانوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ انتظام کیا جائے تاکہ مائوں کی گود اجڑنے سے بچ سکے۔
رابعہ خاتون