ہماری خود داری کے ہاتھ کس نے باندھے

362

جولائی کا مہینہ چل رہا ہے۔ مون سون بھی ہے۔ کہیں دھوپ ہے، کہیں بارش اور کہیں کہیں بادل کی ٹکڑی۔ ویسے تو مون سون ہر سال جولائی میں ہی آتا ہے تاہم پاکستان میں سیاسی مون سون گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے اور یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پوری قوم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ مون سون کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی علاقے میں کہیں بارش ہورہی ہوتی ہے اور کہیں دھوپ چمک رہی ہوتی ہے لہٰذا جو یہ کہے اس کی گلی میں بارش ہوئی ہے اس کی بات بھی مان لی جائے اور جو یہ کہے ہمارے محلے میں تو بارش نہیں ہوئی بلکہ دھوپ چمک رہی ہے اس کی بات بھی مان لی جائے کیوںکہ دونوں ہی ٹھیک ہیں۔ پاکستان کی سیاست بھی اسی مون سون کی مانند ہے۔ ایک بحث ہے کہ لیاقت علی خان روس کے بجائے امریکا کیوں چلے گئے؟ پاکستان کے اولین سفارت کاروں کی ٹیم کے ایک اہم رکن جناب ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی سے بہت نیاز مندی تھی ان سے بہت ملاقاتیں رہیں، سفارت کاری سے متعلق بھی ان سے بہت سیکھنے کو ملا۔ ملاقاتوں میں کئی بار انہوں نے کہا کہ ہمیں تو روس کی جانب ہی سے دعوت نامہ ملا تھا ایک فریق کا کہنا ہے کہ زبانی دعوت نامہ ملا تھا بہر حال معاملہ یہ ہے کہ ہماری سفارت کاری ہمیشہ سے ایسی رہی کہ آگے بھی کھائی اور پیچھے بھی کھائی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کے کھیل میں کوئی ایک فیصلہ نہیں لے سکے تھے۔

چلیے ہم روس نہیں گئے امریکا چلے گئے اب سوال یہ ہے کہ ہمیں امریکا نے دیا ہی کیا؟ یہ بات ریکارڈ پر ہے سابق صدر اسکندر مرزا نے بیان دیا تھا کہ اس نے آئین امریکا کی ہدایت پر منسوخ کیا تھا‘ اب بتائیے جو ملک کسی دوسرے ملک کا آئین ہی منسوخ کرادے اس سے کبھی کوئی ہم اچھائی کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ پاکستان کی سفارت کاری ہو اور امریکا کا ذکر نہ آئے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا‘ ہمارے سفارتی بابو اس کے ذہنی غلام رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اگر گزشتہ تین چار دہائیوں کی بات کریں تو ہمیں مسعود خان ایک سفارت کار ملتے ہیں دفتر خارجہ کے ترجمان بھی رہے اور یہ بہت مقبول ترجمان رہے ہیں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو آزاد کشمیر کے صدر بنا دیے گئے۔ جب صدر بنے تو ان سے سوال کیا کہ جناب سفارت کار کی حیثیت سے تو آپ مذاکرات کے ہامی رہے اور کشمیر کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے خلاف رہے‘ اب ریاست جموں و کشمیر کے صدر ہیں‘ اب آپ کا کیا موقف ہے؟ مذاکرات یا مسلح جدوجہد؟ جواب میں مسکرا دیے اور چل دیے۔

ابھی حال ہی میں مسعود خان کی موجودگی میں امریکا میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں پاکستان سے کچھ مطالبات کیے گئے‘ ایسی ایک قرارداد یو این ورکنگ گروپ میں پیش کی گئی۔ دونوں قرادادوں کے الفاظ مختلف مگر معنی اور مقصد ایک۔ جس ملک کے ایک سابق صدر اسکندر مرزا نے یہ اعتراف کرلیا ہو اس نے امریکا کی ہدایت پر ملک کا آئین منسوخ کیا اس ملک کے امریکا کے ذہنی غلام سفارت کاروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ امریکا کے سامنے جرأت مندی کا مظاہرہ کریں گے! لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے صدر کو جس نے امریکا کی ہدایت پر ملک کے آئین کو منسوخ کرنے کا اعتراف کیا‘ دیوار میں کیوں چن نہیں دیا گیا؟ اور ایسے سفارت کار جن کی موجودگی میں ملک کے خلاف قراداد پاس ہوجاتی ہے انہیں کیوں سر پر بٹھائے رکھنے کی روایت ختم نہیں ہوتی۔

ہمارے پالیسی ساز سچ کیوں سامنے نہیں آنے دیتے؟ سچ یہ کہ سیاست اور سفارت کاری دونوں شطرنج کا کھیل ہے۔ جس میں جو دوسرے کو مات دے جائے جیت اسی کی ہوتی ہے لیکن شطرنج کے کھیل میں آنکھیں کھلی رکھ کر، دماغ لڑا کر، مخالف کھلاڑی کے میدان اور اس میدان میں سجائے ہوئے پیادوں کی ترتیب پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ مخالف پر حملہ کرنے سے اس کے جوابی حملے کے اثرات کا جائزہ لینا ہوتا ہے جس نے بھی یہ کھیل سیکھ لیا وہ روایتی سفارت کاری اور سیاست کے دائو بیچ بھی سیکھ جائے گا۔

چلیے ذرا پاکستان میں ہونے والے 1970 کے انتخابات کی بات کر لیتے ہیں۔ 1968 میں ایوب خان کو دل کا دورہ پڑا‘ صحت بگڑی تاہم انہوں نے اقتدار اور عہدہ نہ چھوڑا‘ جب ملک کا نظم و نسق یحییٰ خان کے حوالے کیا تو یہ حکم نامہ بھی غیرقانونی تھا 1970 کے انتخابات کی انتخابی مہم ایک سال تک چلی، بھٹو نے انتخابی مہم میں معاہد تاشقند استعمال کیا اور عوام کے جذبات بھڑکائے۔ غربت کے مارے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ شیخ مجیب نے چھے نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی اور مشرقی پاکستان کے عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور یحییٰ انتظامیہ سب کچھ دیکھتی رہی مجیب خان کے سرکش نعروں نے اسے مشرقی پاکستان کے عوام کا ہیرو بنادیا‘ دوسری جانب مجیب یہ یقین دلاتے رہے کہ اقتدار حاصل کرکے وہ پاکستان سے الگ ہوجانے والے نظریات کے ہامی علٰیحدگی پسندوں کے خلاف تاریخ میں یاد رکھی جانے والی کارروائی کریں گے۔ یحییٰ انتظامیہ اصل کھیل کو سمجھ نہ سکی یا سب کچھ ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتی رہی، ہاں البتہ اس نے متحدہ پاکستان کے ہامیوں کی انتخابی مہم میں مالی اعانت ضرورت کی کہ وہ مطلوب نتائج حاصل کرلیں۔ اس وقت جس جس جماعت کو یحییٰ خان انتظامیہ سے پیسے ملے ان کے نام تو آج کی نسل کو بتا دینے چاہئیں۔ کوئی ہرج کی بات نہیں۔

اب آخر میں ایک واقعہ اور سن لیجیے، بہاول پور ریاست میں سکندر حیات وزیر اعظم تھے دکن اس ریاست کا آئیڈیل تھا اس وقت انگریز انتظامیہ نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ ہمارا قرض واپس کیا جائے اور قرض واپس نہیں کرتے تو ریاست کا کچھ حصہ ہمارے قبضہ میں دیا جائے۔ امیر بہاول پور نے قائد اعظم محمد علی جناح سے مشورہ کیا، انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ انگریزوں سے کہیں کہ جو ریلوے لائن اس نے ریاست کی زمینوں سے گزاری ہے اس کا معاوضہ دے لیکن ریاست کے وزیر اعظم سکندر حیات نے یہ مطالبہ نہ کیا تو انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ اب آتے ہیں اس بات پر کہ کیا خاموش رہنے کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے؟ بس یہ ایک سوال ہے یہی سوال پاکستان کی فیصلہ ساز بیورو کریسی اور فیصلہ سازوں سے بھی ہے کہ کیا خاموش رہنے کی کوئی قیمت ہوتی ہے اگر ہوتی ہے تو کتنی؟ اب پاکستان کے قیام سے لے کر مشرقی پاکستان کے سانحے تک اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اب امریکا میں پاکستان کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد تک سب خاموشیوں کا جائزہ لیں اور خود تصور کرلیا جائے کیا خاموشی کی کوئی قیمت ہوتی ہے؟ ہوتی ہے تو کتنی؟ بس یہی سیاسی مون سون ہے کہیں بارش اور کہیں دھوپ اور اسی مون سون نے پاکستان کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔