امریکی صدر کی ضد برقرار، دماغی معائنے سے انکار

417

جسمانی اور ذہنی صحت کے حوالے سے محض امریکا نہیں بلکہ پوری دنیا میں تماشا بن جانے والے امریکی صدر جوزف بائیڈن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ میں بالکل فٹ ہوں، انتخابی دوڑ میں ہوں گا اور رہوں گا اور جیت کر بھی دکھاؤں گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ مخالفین بے جا تنقید سے باز نہیں آرہے۔

گزشتہ ہفتے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل پہلے انتخابی مباحثے میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد پہلے ٹی وی انٹرویو میں صدر بائیڈن نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ لوگ میرے دماغی معائنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ وہ شاید اس فکر میں مبتلا ہیں کہ میں امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کے قابل رہا بھی ہوں یا نہیں۔ سچ یہ ہے کہ میرے کسی بھی دماغی معائنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عمر زیادہ ہے اس لیے صحت کے حوالے سے پیچیدگیاں ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں انتخابی دوڑ سے الگ ہو رہا ہوں یا الگ ہوجاؤں گا۔

ایک سوال کے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا میں اب بھی پوری طرح فٹ ہوں اور ناقدین یہ نکتہ ذہن نشین رکھیں کہ میں محض انتخابی دوڑ میں شریک رہنے کا عزم نہیں رکھتا بلکہ ایک بار پھر فاتح کی حیثیت سے ابھروں گا۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے مباحثے میں شکست کے بعد سے اب تک صدر بائیڈن کو شدید نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ امریکا بھر میں یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ اب انہیں انتخابی دوڑ سے الگ ہوجانا چاہیے اور ڈیموکریٹک پارٹی کو اُن کی جگہ کوئی کم عمر، موزوں اور توانا امیدوار میدان میں اتارنا چاہیے۔

ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بہت مضبوط ہیں اور اُنہوں نے اب تک عمر کے حوالے سے کسی کمزوری مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ متحرک ہیں اور بولنے میں بھی کوئی غچہ نہیں کھارہے۔ دوسری طرف جو بائیڈن کو مربوط انداز سے بولنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار صدر بائیڈن کی عمر کے حوالے سے بہت فکرمند دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی حال امریکا کے پالیسی میکرز کا بھی ہے۔ جو بائیڈن اس وقت شدید جسمانی نقاہت اور ذہنی کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کسی نہ کسی طور دوبارہ صدر منتخب ہو بھی گئے تو کام کیسے کریں گے۔ اُن کی ذہنی صحت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔

امریکا کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر کے منصب پر ایسے شخص کی ضرورت ہے جو جسمانی اور ذہنی طور پر توانا ہو۔ صدر بائیڈن کے بارے میں کوئی بھی یہ بات پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوسری مدت میں اپنے فرائضِ منصبی بخوبی انجام دے پائیں گے۔