کیا نومنتخب ایرانی صدر توقعات پر پورے اُتر پائیں گے؟

225

مسعود پزشکیان ایران کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ وہ اصلاح پسند ہیں اور بہت سی تبدیلیوں کا وعدہ کرکے صدر کے منصب تک پہنچے ہیں۔ اُن کے لیے ایرانی صدر کے منصب پر فائز رہتے ہوئے اپنے تمام وعدے پورے کرتے ہوئے کام کرنا آسان نہ ہوگا۔

مسعود پزشکیان کا شمار اُن اصلاح پسندوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایران کی رجعت پسند قیادت کے بہت سے سے اقدامات کو چیلنج کرنے کی ہمت بھی دکھائی ہے۔ وہ ایران کی مذہبی پولیس کے خلاف بھی رہے ہیں۔ حجاب کے حوالے سے حکومت پر ان کی تنقید بھی نمایاں رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ اپنے تمام وعدے کس حد تک پورے کرسکیں گے۔ ایران اس وقت مسائل سے گِھرا ہوا ہے۔ رجعت پسند اور انتہائی رجعت پسند قیادت کم و بیش تین عشروں کے دوران اقتدار کے تمام مآخذ پر متصرف رہی ہے۔اب اُس کا زور کچھ ٹوٹا ہے۔

ایرانی عوام ایک زمانے سے اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا قائد آئے جو کچھ کرکے دکھائے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا احترام تو لوگوں کے دلوں میں باقی ہے مگر اُن سے کسی کو زیادہ امید نہیں۔ اصلاح پسندوں نے بھی متعدد مواقع پر عوام کو مایوس کیا ہے۔
مسعود پزشکیان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں

۔ وہ اگرچہ 70 سال کے ہیں مگر پھر بھی اُن میں غیر معمولی چُستی، پھرتی اور تیزی پائی جاتی ہے۔ وہ امراضِ قلب کے محض ماہر نہیں بلکہ سرجن ہیں۔ 1994 میں کار کے ایک حادثے میں مسعود پزشکیان کی اہلیہ اور بیٹے کی موت واقع ہوئی تھی۔

یہ حادثہ ان کے لیے بہت بڑا المیہ تھا۔ ان کی بیٹی اور دو بیٹوں کی عمریں اس وقت کم تھیں مگر انہوں نے یہ وقت مثالی جواں مردی سے جھیلا اور دوسری شادی نہیں کی۔ بچوں کی پرورش پر انہوں نے بھرپور توجہ دی اور ساتھ ساتھ سیاسی و پیشہ ورانہ محاذ پر بھی متحرک رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال کا دباؤ غیر معمولی استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہیں۔

معیشت اور معاشرت دونوں اعتبار سے ایران اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔ یہ دو راہا بہت نازک ہے۔ ایسے میں ایرانی عوام بجا طور پر امید رکھتے ہیں کہ مسعود پزشکیان اپنے وعدوں کے مطابق معیشت اور معاشرت دونوں ہی کو مستحکم بنانے پر متوجہ رہیں گے۔ ایران بین الاقوامی پابندیوں کے باعث غیر معمولی معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔

دوسری طرف قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان نظریاتی تفریق و تصادم کا گراف بھی بہت بلند ہے۔ ایسے میں مسعود پزشکیان سے وابستہ توقعات کا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔ایران کو علاقائی اور عالمی سطح پر غیر معمولی توازن کے ساتھ چلنا ہے۔

غزہ کی صورتِ حال نے بھی ایران کو مشکلات سے دوچار کر رکھاہے۔ لبنان، یمن اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے اسرائیل کو سبق سکھانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ حوثیوں نے پہلے بحیرہ احمر اور خلیجِ عدن میں کارروائیاں کیں اور اب وہ اسرائیل کو براہِ راست نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کر رہی۔ حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان بھی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مسعود پزشکیان کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ کوئی بھی غلط فیصلہ دور رس اثرات کا حامل ہوگا۔

ایران کو مغرب سے اپنے تعلقات بھی بہتر بنانے ہیں تاکہ معیشت کے لیے مشکلات دور ہوں۔ اس معاملے میں نئی ایرانی قیادت کو غیر معمولی رواداری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہے۔ امریکا اور یورپ چاہیں گے کہ ایران اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ ایران کی اپنی ترجیحات ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی سیاسی اور اسٹریٹجک ڈائنامکس بھی بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ ایسے میں مسعود پزشکیان کو دو دھاری تلوار پر چلنے جیسا مرحلہ درپیش ہے۔