امارات جاکر اندھیرے میں تیر چلانے والے پاکستانی متوجہ ہوں 

306

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور دیگر خلیجی ریاستوں میں ملازمت اور کاروبار کرنے کے خواہش مند پاکستانیوں کی تعداد آج بھی اچھی خاصی ہے۔ ملک میں اچھے خاصے امکانات کو ٹھوکر مار کر لوگ یو اے ای میں طبع آزمائی کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر اچھا خاصا خسارے بھی برداشت کرتے ہیں۔ 

متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی نے خبردار کیا ہے کہ وزٹ ویزا پر دبئی، شارجہ یا ابوظبی پہنچ کر ملازمت تلاش کرنا اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یو اے ای کی جاب مارکیٹ سُکڑ گئی ہے یا وہاں کے آجر بیرونی افرادی قوت کے حوالے سے محتاط و خسیس ہوگئے ہیں۔ مسئلہ قوانین اور متعلقہ ضوابط کا ہے۔

یو اے ای کی حکومت چاہتی ہے کہ صرف وہی لوگ ملازمت کے لیے آئیں جو ملازمت کے اہل ہوں یعنی اُن کے پاس محض مہارت نہ ہو بلکہ معقول مالی وسائل بھی ہوں اور سب سے بڑھ کر جاب آفر بھی ہو۔ 

یو اے ای کے بیشتر ادارے جاب آفر کے ذریعے افرادی قوت حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے باشندے پہلے یو اے ای کے آجروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ معاملات طے پانے کی صورت میں آجر ادارہ جاب آفر لیٹر دیتا ہے۔ جاب آفر لیٹر اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ جو شخص معاشی امکانات کے لیے یو اے ای کا رخ کر رہا ہے وہ دبئی، شارجہ یا کسی اور اماراتی ریاست پہنچنے پر نوکری تلاش نہیں کرے گا بلکہ براہِ راست کام شروع کردے گا۔ 

جاب آفر نہ ہو تو وزٹ ویزا پر یو اے ای کا رخ کرنے والے انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور پھر اُن کے پاس جو بھی رقم ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ 

ادھوری دستاویزات کا معاملہ بھی کم ٹیڑھا نہیں۔ یو اے ای نے اب شرط لگا رکھی ہے کہ جو بھی وزٹ ویزا پر دبئی آئے اُس کے پاس ریٹرن ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ کے علاوہ 3 سے 5 ہزار تک یو اے ای درہم بھی ہونے چاہئیں تاکہ وہ اچھی طرح رہ سکے اور نوبت کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے تک نہ پہنچے۔ 

ویسے تو پاکستانی ایک زمانے سے یو ای اے میں ملازمت کی تلاش میں وزٹ ویزا بروئے کار لاتے رہے ہیں تاہم اب معاملہ بہت پیچیدہ ہوچکا ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے نوکری کی تلاش میں آنے کے بعد پریشانی سے دوچار ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر یہ شرط نافذ کردی ہے کہ ملازمت کے لیے وہی آئے جس کے پاس آفر لیٹر ہو۔ آفر لیٹر ہونے کی صورت میں کسی بھی شخص کو یو اے ای پہنچ کر کام پر لگ جانا ہوتا ہے۔ 

مشرقِ وسطیٰ کی معروف ویب سائٹ “دی نیشنل” سے گفتگو میں پاکستانی سفیر فیصل ترمذی نے ساتھ ہی ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ تمام دستاویزات مکمل حالت میں ہونی چاہئیں تاکہ یو اے ای پہنچ کر الجھنوں کا سامنا نو۔ دستاویزات کی ویریفیکیشن پہلے سے کرلی جانی چاہیے تاکہ یو اے ای میں اس حوالے سے کچھ نہ کرنا پڑے۔