تقریباً نصف صدی ہونے کو ہے۔ 5جولائی 1977 کو مارشل کے نفاذ سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے اس اقدام کا جائزہ لینے سے قبل اس وقت کے ملکی حالات پر بھی نظر رکھی جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے‘‘۔ پانچ جولائی 1977 اور 16 دسمبر 1971 کے درمیان محض ساڑھے پانچ سال کی مدت ہے۔ پوری قوم آج بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے غم سے باہر نہیں نکل سکی اس وقت تو اس سانحے کو محض ساڑھے پانچ سال ہوئے تھے، حالات یہ تھے کہ ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے جس کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے بلکہ پوری قوم پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابات میں منظم دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے آئین، اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اس کے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا۔ پانچ جولائی 1977 کا اقدام کیوں اٹھایا گیا؟ یہ سوال اس قدر اہمیت کا حامل ہے اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے سیاست کے طالب علموں کو آئین کے مطابق حکومت اور اس کے آئینی فرائض کا جائزہ لینا چاہیے۔ بھٹو صاحب کی جبلت میں یہ بات شامل تھی کہ انہیں سو فی صد طاقت اپنی جیب اور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا۔
پیپلزپارٹی کی تشکیل سے وہ دوسری جماعتوں میں اہم عہدے کے حصول کی کوشش بھی کر چکے تھے حتیٰ کہ جماعت اسلامی سے مدد مانگ چکے تھے انہوں نے ممتاز بھٹو کے ہمراہ انڈونیشیا کے راہنماء سوئیکارنو کی بیوہ رتنا سری دیوی سے ملاقات کی تھی اپنے شہر کی حکومت کا تختہ بھی کر چکی تھیں بلکہ سہولت کار بنی تھیں۔ بھٹو صاحب نے پارٹی بنانے سے قبل بہت سے سیاسی کارکنوں اور راہنمائوں سے ملاقات کی تھی وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں اپنے لیے کسی عہدے کے متمنی تھے لیکن جناب ولی خان اور دولتانہ نہ مانے۔ بھٹو صاحب نے چودھری غلام محمد سے بھی رابطہ کیا۔ محترم عبدالکریم عابد نے یہ بات مجھے خود اسلام آباد میں ہونے والی ایک ملاقات میں بتائی چودھری غلام محمد نے بھٹو سے ملاقات کا ذکر اپنے دوستوں سے کیا تو انہیں مشورہ یہی دیا گیا کہ بھٹو سے دور رہیں۔ جسارت کے سابق مدیر جناب عبد الکریم عابد مرحوم اپنی زندگی میں اس واقعہ کو رپورٹ بھی کر چکے ہیں۔ بھٹو دور کیا تھا؟ اس دور میں سب کچھ پیپلزپارٹی کے لیے تھا‘ حتیٰ کہ راشن ڈپو بھی‘، 5جولائی کا مارشل لا تو بعد میں نافذ ہوا، اس سے پہلے خود بھٹو حکومت کے دور میں آئین میں دی گئی گنجائش کی آڑ لے کر ملک کے تین شہروں میں ضلعی انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج سے مدد طلب کرچکی تھی اور باقاعدہ مارشل لانافذ کیا مگر اس کے باوجود عوام اس حکومت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے رہے، یہ ساری صورت حال 7 مارچ 1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کے بعد عوام کے احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی تھی، جس سے ملک میں امن و مان کا شدید مسئلہ پیدا ہوا۔
7 مارچ1977 کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی اور ملک میں اس حکومت کو کوئی چیلنج نہیں تھا، آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت 14 اگست 1977 کو ختم ہونے والی تھی، بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور 5 جنوری 1977 کو ملک میں مزید زرعی اصلاحات کرکے مالیہ ختم کردیا اس کے علاوہ 25 ایکڑ نہری اور 50 ایکڑ بارانی اراضی کے مالکان کے لیے انکم ٹیکس بھی معاف کردیا اگلے ہی روز سول اور فوجی ملازمین کی پنشن میں دوگنا اضافہ کردیا اور 10 جنوری 1977 کو صدر فضل الٰہی چودھری نے قومی اسمبلی تحلیل کردی، اعلان کیا کہ عام انتخابات وقت سے پہلے 7 مارچ کو ہوں گے اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ ہوگی۔ انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ’’سیاست دان بھی انتخابات سے اتنا ہی گریزاں ہوتے ہیں جتنا فوجی جرنیل جنگ سے، سیاسی لڑائی خواہی نخواہی لڑنا پڑتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے‘‘۔
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی 11 جنوری کو اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کا اعلان کردیا گیا، بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی افراد جن میں رفیع رضا شامل ہیں، نے مکمل علم ہونے کے باوجود انہیں اپوزیشن کی اس خاموش انتخابی تیاری سے بے خبر رکھا۔ پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی سیاسی حریف اس کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود اس نے اپنی کامیابی کے لیے ’’فول پروف اقدامات کیے‘‘ انتخابات کے اعلان سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں 11 اپریل 1976 کو ایک ماڈل الیکشن پلان بنایا اس دستاویز پر بھٹو صاحب کے دستخط ہیں اور یہ سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے، اسی پلان کے تحت انتخابات سے پہلے وزراء کی نگرانی میں انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں، انتخابات میں سرکاری گاڑیوں اور کارکنوں میں آتشیں اسلحہ کی تقسیم ہوئی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کے لیے سرکاری اہل کاروں پر دبائو ڈالا گیا۔ بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے بیش تر وزراء بھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے۔ انتخابی نتائج آئے تو پیپلزپارٹی نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پاکستان قومی اتحاد کو صرف36 نشستوں پر کامیابی ملی، جس سے ملک میں رد عمل بہت شدید ہوا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔
12 مارچ کو بھٹو صاحب نے مذاکرات کی پیش کش کی مگر پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے اسے مسترد کردیا اور بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب نے19 مارچ کو خط کا جواب دیا کہ از خود انہوں نے شکایات کا جائزہ لینے کا عمل شروع کردیا ہے تاہم وہ نئے انتخابات کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، حکومت نے لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لانافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل محمد شریف کو اس کی ہدایت کردی گئی۔ وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو فرمان جاری کرنے کے لیے ڈرافٹ تیارکرنے کی ہدایت کی کہ صدر فضل الٰہی چودھری سے اس پر دستخط کرالیے جائیں، اس کے باوجود وزیر اعظم سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں، اس سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا جائے؟ تاہم یہاں 1977 کے مارشل لا کے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں تاکہ سیاسی تاریخ کے طالب علم اس سے رہنمائی لے سکیں اور وہ اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں واقعات کو پرکھ اور سمجھ سکیں، جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چودھری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لا حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی درخواست بھی قبول کرلی بلکہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو متعدد قیمتی مشورے بھی دیے۔ یہ ایک نہایت مختصر سا پس منظر ہے جس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے ان کی گواہی کے لیے خود پیپلزپارٹی کے راہنماء رانا شوکت محمود کی کتاب سے بھی مل سکتی ہے۔
پانچ جولائی 1977 کے واقعہ کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں آج سے47 سال واپس جانا ہوگا جب ملک میں عام انتخابات ہوئے اور قوم کی ایک بہت بڑی اکثریت نے اس کے نتائج تسلیم نہیں کیے‘ بلکہ ان نتائج کے خلاف ملک گیر عوامی تحریک شروع ہوگئی‘ وفاق اور صوبائی حکومتیں امن و مان قائم کرنے کے لیے آئینی طور پر انتظامی مشینری استعمال کرنے میں ناکام رہیں تو فوج نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا‘ ہاں یہ بات آئین کی جمہوری روح کے خلاف تھی ہے اور آئندہ بھی سمجھی جائے گی‘ لیکن سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ملک کے سیاست دان اور منتخب پارلیمان، سیاسی جماعتیں، کھلے دل کے ساتھ ملک کو آگے بڑھانے، معیشت درست کرنے، عدل و انصاف کا نظام مستحکم بنانے، ریاست کو بیرونی جارحیت سے بچانے اور اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھنے کے لیے باہم بات چیت کے راستے اختیار کریں تو ملک میں کبھی آئین کی جمہوری روح بھی متاثر نہیں ہوگی۔ جمہوریت کی تعریف تو یہی ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے۔ مگر تلخ حقائق یہی ہیں کہ آج سے 47 سال پہلے جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا کیا واقعی عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے والا ماحول تھا؟