برطانیہ میں حکومت کی تبدیلی پُھول مہکائے گی یا گُل کھلائے گی؟

180

61 سالہ کیئر اسٹارمر برطانیہ کے وزیرِ اعظم بننے والے ہیں۔ وہ لیبر پارٹی کے قائد ہیں جس نے برطانوی الیکشن حکومت سازی کے لیے مطلوب اکثریت حاصل کرلی ہے۔

کیا اب برطانوی سیاست میں تعطل ختم ہوگا، بے یقینی کی کیفیت ختم ہوسکے گی، یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں گردش کر رہا ہے جسے برطانوی سیاست سے دلچسپی ہے اور جس نے کم و بیش بارہ برس کی مدت میں برطانوی سیاست کو انتہائی پریشان کن حالت میں دیکھا ہے۔

کیئر اسٹارمر وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کا شمار کرمنل مقدمات کے ایسے وکیلوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انصاف کی فتح یقینی بنانے کے لیے اَن تھک محنت کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ برطانوی سیاست کو مستحکم رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں۔

اسٹارمر بنیادی طور پر لبرل ہیں یعنی بائیں بازو کی طرف اُن کا جھکاؤ واضح رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ انتہا پسندی کی مخالف کی ہے اور بہبودِ عامہ کو ترجیح دی ہے۔ عوام کی مشکلات دور کرنے کے حوالے سے ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔
اسٹارمر کہہ چکے ہیں کہ ٹیکس چرانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جانی چاہئیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اہم ترین عوامی خدمات کے اداروں کو قومی تحویل میں لینے کے بھی حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے بہبودِ عامہ یقینی بنائی جاسکے۔

اہم سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر برطانیہ کیا کر پائے گا۔ اس وقت برطانیہ اور امریکا کو اندرونی کمزوریوں کا سامنا ہے۔ برطانیہ اور امریکا دونوں ہی کے ووٹرز منقسم ہیں۔ ایک طرف نسلی اور ثقافتی تنوع بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف دونوں ممالک کے ووٹرز کو کمزور سیاست دانوں کا سامنا ہے۔ برطانیہ میں سیاسی تقسیم گہری ہوچکی ہے۔ یہی حال امریکا کا بھی ہے۔

برطانیہ میں مضبوط حکومت کا قیام دردِ سر بن چکا ہے۔ امریکا میں حکومت چار سال کے لیے بن تو جاتی ہے تاہم اس کے نتیجے میں چند ایک پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ امریکا میں حکومت کی تبدیلی کم و بیش ناممکن معاملہ ہے۔ جو صدر بن گیا سو بن گیا۔

برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ جاپان اور کوریا کی طرح جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی حال برطانیہ کا بھی ہے۔

برطانیہ میں ڈیڑھ عشرے کے دوران سیاسی اکھاڑ پچھاڑ زیادہ رہی ہے۔ اس دوران لِز ٹروس کی پچاس دن کی وزارتِ عظمٰی بھی واقع ہوئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں سیاسی عدم استحکام کی نوعیت اور شدت کیا ہے۔
کیئر اسٹارمر کا جھکاؤ صدر بائیڈن کی طرف رہا ہے۔ وہ غزہ کی صورتِ حال کے حوالے سے اسرائیلی کے جنگی جرائم کے بارے میں بھی ناقدانہ انداز سے کچھ کہنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ یہ بات برطانیہ میں آباد مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اسٹارمر نے صدر جو بائیڈن کے متعدد اقدامات کو سراہا ہے اور برطانوی میڈیا میں یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ وہ بہت حد تک صدر بائیڈن کے سِحر میں ہیں۔ صدر بائیڈن کی پوزیشن کمزور ہے۔ بہت حد تک یہ ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی ایوانِ صدر میں براجمان ہوں۔

اگر ایسا ہوا تو برطانیہ اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ صدر بائیڈن کی طرف جھکاؤ رکھنے پر اسٹار کو مکمل طور پر قبول کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے آسان نہ ہوگا۔

اسٹارمر نے لیبر پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے قابل تو بنادیا تاہم ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اُن کے وزیرِ اعظم بننے پر برطانیہ میں پھول مہکیں گے یا پھول کھلیں گے۔ وہ چونکہ معاشی معاملات میں سخت گیر رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں اور ہر شے پر ملک کو مقدم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے وہ سب لوگ اُن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے جن کے معاشی مفادات پر ضرب لگے گی۔

ٹیکس چوروں کے خلاف ذرا بھی لچک نہ دکھانے کا عندیہ دے کر انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اسرائیل نوازی پر مبنی رویہ اپنائے رہنے کی صورت میں برطانوی معاشرے میں انتشار بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں اسٹارمر کے لیے برطانوی وزارتِ عظمٰی دُہری دھار کے خنجر کے مانند ہے۔

شکست خوردہ برطانوی وزیرِ اعظم رشی سُناک نے تارکینِ وطن کے خلاف سخت تر اقدامات کا عندیہ دے کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی۔ ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسٹارمر تارکینِ وطن کے حوالے سے کچھ ایسا کریں گے جو رشی سُناک کی سوچ سے مطابقت رکھتا ہو؟ اگر ایسا ہوا تو اُن کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ برطانوی معاشرے میں تارکینِ وطن بہت مضبوط پوزیشن ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا کسی بھی اعتبار سے کوئی آسان کام نہیں۔

انتظار کیجیے اور دیکھتے رہے کہ کیئر اسٹارمر کی وزارتِ عظمٰی پھول مہکائے گی یا گُل کھلائے گی۔