افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

298

شریعت کے نفاذ کے ترتیب
شریعت کا منشا (اسلام کی) اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت دین کے بالکل خلاف ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ، اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟
اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدم جواز کی قانونی بحث کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمتِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمت دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حْکام کے ذریعے سے کرایا جائے، جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ اسلام کو دْنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اِن لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائے جائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بنا کر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی، تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دْنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔
٭…٭…٭
اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اْس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے، جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں، اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔
٭…٭…٭
یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلس قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدود ِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودئہ قانون پیش کردیا گیا۔ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، اکتوبر 1962)

نبی ﷺ پر درود
نبیؐ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ ’مجھ پر درود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دْعا کرو کہ اے خدا، تو محمدؐ پر درود بھیج‘۔ نادان لوگ جنھیں معنی کا شعور نہیں ہے، اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ تو ہم سے فرمارہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھیجو، مگر ہم اْلٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تْو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبیؐ نے یہ بتایا ہے کہ تم مجھ پر ’صلوٰۃ‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے۔ اس لیے اللہ ہی سے دْعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ کے مراتب بلند نہیں کرسکتے، اللہ ہی بلند کرسکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے، اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفعِ ذکر کے لیے اور آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اْس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، حتیٰ کہ حضورؐ کی محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہوسکتی ہے۔ ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کرسکتا ہے، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ لہٰذا، حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ سے آپؐ پر صلوٰۃ کی دْعا کی جائے۔ جو شخص اَللّٰھْمَّ صَلِّ عَلٰی مْحَمَّد کہتا ہے، وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خدایا، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے، تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
(تفہیم القرآن، ترجمان القرآن، اپریل 1962)