رسول اکرمؐ نے اپنا ایک خواب صحابہ کرامؓ کے سامنے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنوئیں کی منڈھیر پر کھڑا ہوں، پانی کا ڈول ہاتھ میں لے کر پانی نکالتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے یہ ڈول ابوبکر صدیقؓ کو دے دیا، انہوں نے چند ڈول پانی کے نکالے ہوں گے مگر ان کی چال میں کچھ کمزوری تھی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر ابوبکرؓ کے ہاتھ سے یہ ڈول عمر بن خطابؓ کے ہاتھ میں پہنچا انہوں نے جس تیزی جانفشانی کے ساتھ پانی نکالا میں نے اتنا مضبوط مستحکم شخص کبھی نہیں دیکھا، کھیت پانی سے اتنے بھر گئے کہ کناروں تک پانی پہنچ گیا، تمام چوپائے اور انسان سیراب ہوئے۔ آپؐ نے اس خواب کی تعبیر خدمت اسلام سے فرمائی۔ اشارہ تھا محمد الرسول اللہ کے بعد خلافت کا تاج ابوبکر صدیقؓ کے سر پر سجے گا، خدمت اسلام کی نگرانی ان کو میسر آئے گی اس کے بعد خلیفہ عمر فاروقؓ ہوں گے اسلام کے جھنڈے کو چار دانگ عالم میں لہرانے کا اعزاز ان کو حاصل ہوگا۔
عمر بن خطابؓ نے نہ صرف اس خدمت اسلام کو بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ انجام دیا بلکہ رسول ثقلین کے پونے دو لاکھ صحابہ میں یہ اعزاز صرف ان کو ملا کہ سارے صحابہ مرید مصطفی ہیں لیکن عمر بن خطاب مراد مصطفی ہیں۔ مکی زندگی میں مسلمان جب کفار کے مظالم سے بہت تنگ تھے اور متعدد بار اس کا اظہار حبیب کبریا کے سامنے کرچکے تھے مسلمانوں کی تعداد بھی صرف 39 تھی۔ ایک رات رسول امین نے اپنے رب کی بارگاہ عالی میں ہاتھ اٹھائے اور التجا فرمائی: ’’اے اللہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرما کر اسلام کو قوت و شوکت عطا فرما۔ اگلے ہی روز عمر بن خطاب نے دار ارقم میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ ان کے قبول اسلام کے وقت صحابہ کرامؓ نے اتنے زور سے نعرہ تکبیر بلند فرمایا کہ مکہ کے دشت و جبل گونج اٹھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو چلا تھا، سیدنا عمرؓ رسول گرامی سے التماس کرتے ہیں کہ یارسول اللہ! اب نماز خانۂ کعبہ میں اعلانیہ ادا فرمائیے۔ آپ امامت فرمالیں گے اور خطاب کا بیٹا عمر صحابہؓ کی چوکیدار کرے گا۔ چنانچہ صحابہ دو صفوں میں نکلے ایک کے ساتھ شیر خدا سیدنا حمزہ اور دوسری صف کے ساتھ عمرؓ بن خطاب موجود تھے اور خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا فرمائی۔ کفار اس وقت دارالندوہ میں موجود تھے، مگر کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مسلمانوں کو روکنے کی جرأت کرسکے۔ دربت کدہ اور عبادت خدا کی نماز اور کعبہ میں جا کر ادا کی۔
رسول کائنات کی بعض عظیم پیش گوئیوں کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز بھی سیدنا عمر فاروقؓ کو حاصل ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر صحابہ کرامؓ کفار کے لشکروں کو روکنے اور مدینہ میں آباد تمام قوموں کے دفاع کے لیے خندق کھودنے میں مصروف تھے، دوران کھدائی ایک مقام پہ ایسی سخت چٹان نکل آئی جو ٹوٹنے کی بجائے کدالوں کو کند کررہی تھی، تھک ہار کر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اسے چھوڑ کر دائیں بائیں سے کھدائی کرلیں، لیکن پھر یہ طے پایا ایسا کرنے سے قبل سرور دوعالمؐ سے ضرور مشورہ کریں گے۔ صحابہ سرکار کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپؐ نے فرمایا کہ میں خود اپنے ہاتھوں سے اس پر کدال چلا کر اسے توڑ دوں گا۔ آپؐ نے کدال ہاتھ میں لی، بسم اللہ پڑھی اور زور دار طریقے سے کدال کا وار کیا۔ چٹان سے بجلی کی ایک چمک نکلی، آپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، چٹان کا تیسرا حصہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ آپؐ نے پیش گوئی فرمائی کہ اللہ نے مجھے ملک شام کی چابیاں عنایت فرمادی ہیں۔ میں شام کے سرخ محلات کا یہیں سے نظارہ کررہا ہوں۔ دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر کدال چلائی، اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا، چٹان کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ کر گرا اور فرمایا: میرے اللہ نے مجھے فارس (ایران) کی چابیاں دے دی ہیں۔ میں فارس کے بادشاہ کسریٰ کے محل قصرابیض کو دیکھ رہا ہوں۔ تیسری مرتبہ بسم اللہ پڑھ کر کدال کا وار کیا، اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ بقیہ چٹان ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ نے مجھے ملک یمن کی چابیاں دے دی ہیں۔ میں اس کے دارالخلافے صنعاء کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں۔
سیدنا عمر 13ہجری 22 جمادی الثانی کو تخت خلافت پر تشریف فرما ہوئے۔ آپؓ نے رسول اکرمؐ کی پیش گوئی کو سامنے رکھتے ہوئے ملک فارس کو فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام کا لشکر جرار تیار فرمایا اور اس کی کمان اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جلیل القدر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا علی اور سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ نے مشورہ دیا کہ خلیفہ وقت کو مدینہ میں ٹھہر کر کسی اور کو روانہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاصؓ کو سالار لشکر بنا کر روانہ کیا گیا۔ صرف ایک سال کے بعد سعد ابن وقاصؓ نے فارس کے بہت بڑے لشکر میدان قادسیہ میں شکست فاش سے دوچار کیا، اور آگے بڑھ کر دریائے دجلہ کو عبورکیا۔ کسریٰ کے تاریخی محل قصرابیض کو فتح کیا، محل میں اعلیٰ قسم کے نوادرات قیمتی قالین اور غالیچوں کو دیکھ کر بے ساختہ قرآن مجید کی سورۂ دخان کی آیات 25 تا 27 زبان پر آگئیں۔ جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے، کھیتیاں اور اعلیٰ ٹھکانے، وہ نعمتیں جن سے عیش کررہے تھے۔ ہم نے ان کا وارث دوسروں کو بنایا، ان پر نہ زمین و آسمان روئے نہ ان کو مہلت ملی‘‘۔ سیدنا سعدؓ نے یہ خوشخبری سنانے کے لیے ایک قاصد کو مدینہ منورہ روانہ فرمایا۔ قاصد جب مدینہ پہنچا تو سیدنا عمرؓ نے بڑے بڑے صحابہؓ کو جمع فرمایا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔ فرمانے لگے کہ بڑائی اور کبریائی اس ذات اقدس کے لیے جس نے اپنے ایک ادنیٰ سے غلام عمرؓ بن خطاب کو اپنے حبیب کی پیش گئی پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ واقعہ محرم 14ہجری کا ہے۔
فاروق اعظمؓ نے سرکار دوعالم کی دوسری پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے سیدنا ابوعبیدہؓ کو سالار لشکر بناکر ملک شام کی طرف روانہ فرمایا۔ ابوعبیدہ ملک روم کے مختلف شہروں کو فتح کرتے ہوئے بیت المقدس تک پہنچ گئے۔ عیسائیوں نے صلح کے ذریعے سے بیت المقدس کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ صلح کی شرائط میں اہم ترین شرط یہ تھی کہ صلح کی دستاویز پر خود امیر المومنینؓ بنفس نفیس بیت المقدس تشریف لا کر دستخط فرمائیں گے۔
سیدنا عمرؓ کا سفر فلسطین سادگی اور قناعت کی ایک منفرد مثال ہے۔ آپؓ مدینہ سے روانہ ہوئے، ساتھ ایک اونٹ سواری کے لیے، ایک غلام رفاقت کے لیے، ایک ستوؤں کا تھیلہ زاد راہ کے طور پر، ایک لکڑی کا سادہ پیالہ ستو گھولنے کے لیے، جسم پر جو کُرتا تھا اس پر چودہ پیوند لگے ہوئے، دوران سفر کبھی خود اونٹ پر سوار ہوتے اور غلام پیدل چلتا، کبھی غلام کو اونٹ پر بٹھاتے اور خود پیدل چلتے۔ جب بیت المقدس کی حدود میں داخل ہوئے تو بڑے بڑے عیسائی پادری اپنی مقدس کتاب انجیل ہاتھوں میں لیے اونچی عمارتوں کی چھتوں پر بیٹھ کر، امیرالمومنین کے ان اوصاف کو ملاحظہ کررہے تھے جو اللہ نے پہلے سے توراۃ و انجیل میں بیان فرمادیے تھے۔
قرآن مجید کی سورۂ فتح کی آخری آیت میں اللہ کا ارشاد ہے کہ ’’محمد الرسول اللہ کے ساتھی کافروں پر سخت اور آپ میں رحمدل ہیں، تُو ان کو دیکھے گا رکوع اور سجدے میں، اللہ کی رضا مندی تلاش کررہے ہیں، ان کی یہ مثال توارۃ اور انجیل میں بھی ہے‘‘۔ پادریوں نے اونٹ پر سوار شخص کی نشانیاں دیکھیں، باہمی مشورے کے بعد اس رائے پر متفق ہوئے کہ یہ وہ شخص نہیں جس کے اوصاف انجیل میں ہیں، اب میر لشکر ابوعبیدہؓ سے پوچھا کہ خلیفۃ المسلمین کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا جو اونٹ کی مہار تھامے پیدل چل رہا ہے، وہ امیر المومنین ہے۔ انہوں نے دوبارہ کتاب کو کھولا دیکھا تو سارے اوصاف انہی میں موجود تھے۔ باہمی اتفاق رائے سے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ ملک کی چابیاں ان کے حوالے کردو۔ یہ وہی امیر ہے جو دنیا کو فتح کرے گا۔ اس طرح محض تین سال کے عرصے میں 16ہجری رجب کے مہینے میں آپؓ نے بیت المقدس کو اسلام کی سلطنت کی حدود میں داخل فرما کر رسول امینؐ کی دوسری پیش گوئی کو عملی جامہ پہنایا۔ آپؓ نے ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا۔ آپؓ نے چار ہزار شہر فتح کیے۔ چار ہزارمسجدیں تعمیر کیں، چار ہزار بت خانے توڑے اور بے شمار خزانے اسلامی بیت المال میں داخل ہوئے۔
26 ذوالحجہ فجر کی نماز کے وقت ایک مجوسی غلام ابولولو فیروز نے خنجر کے وار سے آپؓ کو زخمی کیا اور یکم محرم 24 ہجری کو آپؓ جام شہادت نوش کرگئے۔ آپؓ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔ سیدنا عمرؓ نے روئے زمین اپنی جرأت بہادری عدل و انصاف انسانی فلاحی خدمات، قناعت و سادگی، خود احتسابی و عوامی جواب دہی کے جو تابندہ نقوش چھوڑے ہیں وہ امت مسلمہ کے لیے قیامت تک مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔؎
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے