یہ بات صرف ہمارے بچپن کے دوست یہ جانتے ہیں کہ میٹرک کے زمانے میں ہم کرکٹ کے عاشق تھے۔ جب فرصت ملتی کرکٹ کے میدان میں پہنچ جاتے اور شام تک کرکٹ کھیلتے رہتے۔ کرکٹ میں ہماری مہارت ہمہ جہت تھی۔ ہم اپنی ٹیم کے سب سے اہم فاسٹ بولر تھے۔ سب سے اہم بیٹسمین تھے۔ سب سے اہم فیلڈر تھے۔ اس وجہ سے ہمارے اکثر دوستوں اور جاننے والوں کا خیال تھا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہم قومی سطح کی کرکٹ کھیلیں گے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا یہ کہ اسی زمانے میں ہمیں لکھنے پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ کرکٹ کا کھلاڑی شعر و ادب اور فکر و فلسفے کی طرف نکل گیا۔ یہاں تک کہ وہ کھلاڑی کرکٹ کو بھول ہی گیا۔ اس کا اوڑھنا بچھونا صرف لکھنا اور پڑھنا بن گیا۔ لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے کرکٹ کے عشق کے پیچھے پاکستانی ٹیم کا ہاتھ تھا۔ عمران خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، آصف اقبال اور ماجد خان ہمارے ہیروز تھے۔ ہم عمران خان اور ظہیر عباس کی طرح بننا چاہتے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی عظمت کے صرف ہم ہی قائل نہ تھے۔ ایک زمانہ پاکستان ٹیم کا گھائل تھا عمران خان ہندوستان کیا برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی ایک ’’دیوتا‘‘ کی طرح لیے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب بھارت پاکستان سے نہ ٹیسٹ میچ جیت پاتا تھا نہ ون ڈے میچ۔ ایک زمانہ اب یہ ہے کہ پاکستان بھارت سے جیتنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب ہم پاکستانی ٹیم کی حالت زار دیکھتے ہیں تو ہمیں احمد شمیم کی نظم یاد آجاتی ہے۔ نظم یہ ہے۔
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اُترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امّی تتلیوں کے پَر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوئوں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
بھارت نے 17 سال کی طویل مدت کے بعد 1978ء میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں بھارتی ٹیم کی قیادت بشن سنگھ بیدی کررہے تھے۔ اس دورے کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے ہندوستان اور پاکستان میں کرکٹ کو ایک وسیع ترین عوامی دائرے میں زندہ کردیا اور دونوں ملکوں میں گلی گلی کوچے کوچے کرکٹ ہونے لگی۔ اس دورے کے اختتام پر بھارتی ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی نے کہا کہ ہم پاکستان سے جیت ہی نہیں سکتے۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو بشن سنگھ بیدی نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم 22 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ ایک تو پاکستانی ٹیم ہے اور دوسرے ظہیر عباس خود ایک ٹیم کی طرح ہیں۔ وہ پچ پر آجاتے ہیں تو سنچری اور ڈبل سنچری
بنائے بغیر آئوٹ ہی نہیں ہوتے۔ کراچی کے میچ میں بھارت کی پوزیشن اچھی خاصی مستحکم تھی، مگر کراچی میں شام ڈھلے سمندری ہوائیں چل پڑیں اور عمران خان کی بولنگ تباہ کن ہوگئی۔ انہوں نے پانچ یا سات رن دے کر بھارت کے پانچ کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیج دیا۔ عمران خان نے بھارت کے مایہ ناز اوپننگ بیٹسمین سنیل گواسکر کو جو بول کی وہ آف اسٹم سے باہر پڑی اور گواسکر کی مڈل وکٹ اُڑاتی ہوئی گزر گئی۔ میچ کے بعد گواسکر نے عمران خان کی بولنگ کو ناقابل علاج قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی بیٹسمین ایک سو پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اسپن ہونے والی بال کو نہیں کھیل سکتا۔ عمران خان کی بولنگ واقعتاً ایک جادو کی طرح تھی۔ ان کا اوور چھے مصرعوں کی ایک نظم محسوس ہوتا تھا۔ اس اوور میں ایک دو گیندیں آئوٹ سونگر ہوتی تھیں، ایک دو اِن سونگر قرر پاتی تھیں اور عمران خان ایک اوور میں ایک دو بائونسر بھی ضرور کرتے تھے۔ اس طرح ان کی بولنگ میں اتنا تنوع ہوتا کہ دنیا کا بڑے سے بڑا بیٹسمین بھی عمران خان کو کھیلتے ہوئے پریشان رہتا۔ عمران خان کی عظمت یہ تھی کہ سنیل گواسکر نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ اس نے کہا میں یا تو گواسکر بننا چاہوں گا یا عمران خان۔ گواسکر نے کہا تم گواسکر ہی بن سکو گے عمران خان نہیں کیونکہ تم عمران خان کی طرح گوشت خور نہیں ہو۔
عمران خان پاکستانی کرکٹ ٹیم کے واحد ’’دیوتا‘‘ نہیں تھے۔ ظہیر عباس بھی بھارت میں دیوتا کی طرح لیے جاتے تھے۔ وہ اس تواتر سے بڑی اننگز کھیلتے تھے کہ انہیں ’’ایشین بریڈ مین‘‘ کہا جاتا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے دورے کے جواب میں 1979ء میں بھارت کا دورہ کیا تو اس وقت ہم اپنے عزیزوں کے یہاں گئے ہوئے تھے۔ ہم نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گرائونڈ میں پاک بھارت میچ 40 ہزار بھارتی تماشائیوں کے درمیان بیٹھ کر دیکھا۔ میچ کے دوران بھارت کے شائقین پاکستان کے ایک ایک کھلاڑی کا ذکر اس طرح کررہے تھے کہ جیسے اس کھلاڑی کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ ایک نوجوان نے کہا یار یہ ماجد خان کس طرح آئوٹ ہوگا۔ دوسرے نے کہا ماجد تو خیر کسی نہ کسی طرح آئوٹ ہوجائے گا مگر ظہیر عباس کا تو کوئی علاج ہی نہیں۔ وہ کپل دیو کو دھن کر رکھ دیتا ہے۔ میچ کے ایک مرحلے پر بھارت کی پوزیشن کچھ بہتر ہوئی تو بھارت کے ممتاز کمنٹیٹر جسدیو سنگھ نے کہا کہ اس وقت آصف اقبال کرکٹ کے میدان میں نہیں جنگ کے میدان میں ایک جرنیل کی طرح لڑ رہے ہیں اور بالآخر آصف اقبال دہلی ٹیسٹ بچا کر لے جانے میں کامیاب رہے۔ اس زمانے میں جاوید میاں داد کا اپنا شہرہ تھا۔ وہ وکٹ پر آجائے تو دیر تک جم کر کھڑے رہتے۔ انہیں آئوٹ کرنا کسی بھی ٹیم کے لیے آسان نہیں ہوتا تھا۔ بلاشبہ یہ پاکستانی ٹیم کا عہد زریں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسی عہد زریں کے اختتام پر پاکستان ون ڈے کرکٹ کا عالمی چمپئن بن کر سامنے آیا۔ مگر آج پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی حالت خستہ ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کو 110 پر آئوٹ بھی کرلے تو بھی بھارت سے میچ نہیں جیت پاتی۔ بھارتی ٹیم تو خیر دنیا کی سب سے متوازن ٹیم ہے۔ پاکستان تو حالیہ ٹی ٹوئنٹی میں امریکا جیسی ٹیم سے بھی ہار گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم بونوں کی ٹیم نظر آتی ہے۔ ہمارے بیٹسمین بونے ہیں۔ ہمارے بولر بونے ہیں۔ ان میں پنجہ آزمائی کا کوئی مادہ ہی نہیں۔ ان کی ’’بدن بولی‘‘ پہلے ہی لمحے سے بتا دیتی ہے کہ یہ میچ ہار چکے ہیں۔ لوگ محبت میں بابراعظم کا موازنہ ویرات کوہلی سے کرتے ہیں مگر ویرات کوہلی ایک میچ وننگ کھلاڑی تھا جبکہ بابر اعظم نے شاید ہی پاکستان کو کبھی کوئی میچ جتایا ہو۔ زندگی کی اصل یہ ہے کہ آدمی بڑا سوچتا ہے تو بڑا بن جاتا ہے پاکستانی کرکٹ میں اب عمران اور آصف کی طرح کوئی بڑا سوچنے والا نہیں ہے۔