الطاف بھائی کو ان کے مداح اکثر عینکیں تحفہ دیا کرتے تھے شاید انہیں بھائی کی بصارت پر شک تھا۔ آج کل جس دانشور اور مفکر کی بصیرت پر شک ہو اسے موٹیویشنل اسپیکر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے کسی آدمی سے کہا ’’بیوقوف سے بحث کرنا عقل مندوں کا کام نہیں‘‘ آدمی نے کہا ’’آپ یہ بات ثابت کریں‘‘ بزرگ مسکرائے اور خاموشی اختیار کرلی۔ موٹیویشنل اسپیکر ایسے وقت میں بھی بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں جب تک کہ معاملہ گرما گرمی سے گزرتا سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوجائے۔
موٹیویشنل اسپیکرکا فیشن ان ہوئے چند سال ہی گزرے ہیں۔ انہیں دیکھیں تو گمان گزرتا ہے کہ دنیا بولنے کی جا ہے۔ موٹیویشنل اسپیکر ہر چیز کا مثبت رخ دکھا کر اسے استعمال کرنے کا گر بتاتے ہیں۔ وہ بے حد پراثر اور دل لبھانے والی باتیں کرتے ہیں۔ خیالی پلائو کی دیگیں پکا سکتے ہیں۔ خیالی قلعے تعمیر کرسکتے ہیں لیکن خود۔۔۔ ایک موٹی ویشنل اسپیکر نے بیوی کو فون کیا اور کہا ’’کسی نے میری گاڑی کا اسٹیئرنگ، بریکیں، ایکسیلیٹر، گیئر سب کچھ چوری کرلیا ہے۔ کیا بنے گا اس دنیا کا، اس دنیا کو کیسے سدھاراجائے؟‘‘ بیوی بولی: ’’دنیا پر غور ہو گیا، بول چکے۔ اب میری بات غور سے سنو۔ مجھے لگتا ہے تم گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو‘‘۔ ایک منٹ کے لیے سناٹا چھا گیا اس کے بعد دھیمی سی آواز آئی ’’تم ٹھیک کہتی ہو میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں‘‘۔ بیوی بولی ’’آتے ہوئے ایک لیٹر دودھ چھے انڈے اور ایک گڈی ہرے دھنیے کی لے آنا اور ہاں دھنیا سونگھ لینا پچھلی بار میتھی اٹھالائے تھے‘‘۔
شروع میں مغرب کی نقالی میں وہ لوگ بھی موٹیویشنل اسپیکر بن گئے آم کھانے سے پہلے جن کے گھر والے سفید کپڑے اتروالیا کرتے تھے۔ بیش تر مغربی کتب اور مصنفین کا ترجمہ کرکے اس کا اردو ورژن پیش کیا کرتے تھے۔ بعد میں کچھ نے مقامی کلچر کا تڑکا لگاکر اس میں کچھ جدت پیداکردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر موٹیویشنل اسپیکرکا بچپن شدید غربت میں گزرا۔ بابے کی کہانی ہر لیکچر کا لازمی حصہ بن گئی۔ ہر بات اور ہر سچویشن میں مثبت سوچ واحد لازمی عنصر قرار پائی۔۔۔ ’’یقین‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ایک موٹیویشنل اسپیکر نے کہا ’’شیر سے کسی نے پوچھا کہ تیرا جسم ہاتھی جتنا بڑا ہے اور نہ ہی تو لومڑی جیسا چالاک ہے پھر بھی جنگل کا بادشاہ کیوں ہے؟‘‘ اس پر شیر نے جواب دیا ’’بس مجھے لگتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں تو بس میں جنگل کا بادشاہ ہوں‘‘ اور پھر پورا ہال تالیوں سے گونگ اٹھا۔ اپنی لچھے دار باتوں سے اسپیکر صاحب تالیاں بجوانے اور اپنی بھاری بھرکم فیس وصولنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ شیر اپنے تیز پنجوں، نو کیلے دانتوں، پھرتیلے جسم اور بہترین شکاری ہونے کی خصوصیات کی وجہ سے جنگل کا بادشاہ ہے۔ خود کو شیر کہہ دینے سے کوئی بادشاہ نہیں بن سکتا۔
محترم ساحل عدیم اس طرح کے موٹیویشنل اسپیکر نہیں ہیں۔ وہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اسلام کی بات کرنے میں پانی سے زیادہ گیلے یعنی مولوی سے بھی بڑھ کر ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ ٹورنٹو میپل لیف (سرکاری اسکواڈ) کے نوجوانوں کے دستے کے ہیڈ ماہر نفسیات تھے۔ وہ پچھلے 15 سال سے ڈنمارک، کینیڈا اور پاکستان کے سی ای او کو کاروبار کی حکمت عملی میں بھی کوچنگ دے رہے ہیں۔ اکتوبر 2022ء میں ان پر سرکاری یونیورسٹیوں میں بولنے پر پابندی لگا دی گئی۔ معافی نامہ جمع کرانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے انکار کردیا؛ ’’آپ لوگ مجھے کسی اور طرح کا عوامی مقرر سمجھ رہے ہیں جسے آپ تقریح کے لیے اپنی محفلوں میں مدعو کرتے ہوں گے۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں اور میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا‘‘۔
سوشل میڈیا اور انفارمیشن کی بمباری کے اس دور میں ساحل عدیم وعظ ونصیحت کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ نظریات کو ذہن نشین کرانے کے ماہر ہیں۔ دیکھ لیجیے کس خوبی سے انہوں نے ’’طاغوت‘‘ کو مارکیٹ کیا ہے۔ کس طرح ایک لفظ سے پوری لبرل کمیونٹی کو ہلادیا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ طاغوت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا ہر وہ چیز، بت یا شیطان کو کہا جاتا ہے جس کی معبود بر حق کے سوا عبادت اور پیروی کی جائے۔ اللہ کی آخری کتاب میں قراردیا گیا ہے ’’جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط کڑا تھام لیا‘‘۔ (بقرہ: 256) ساحل عدیم موجودہ طاغوتی نظام کے خلاف ہیں جس میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نظام کے مقابل ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو خدا بنارکھا ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی طاغوت کی یہ تعریفیں ہم نے سوشل میڈیا سے اخذ کی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا جو دنیا بھر کی فضولیات سے بھرا ہوتا تھا ساحل عدیم کے اس اقدام کے بعد طاغوت کے مطالب سے پُر ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر سید قطب اور مسلم مفسرین کی طاغوت کی تشریح سے ٹائم لائن بھری ہوئی ہے۔ اپنے ایک لبرل دوست کی توجہ ہم نے اس طرف مبذول کرائی تو جھنجلا کر بولے ’’کیا طاغوت طاغوت لگا رکھا ہے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کی جان لوگے کیا‘‘۔
آج کل ساحل عدیم ٹی وی شو میں ایک لڑکی سے بحث کرنے پر وائرل ہیں۔ لڑکی نے پاکستان کی 95فی صد خواتین کو جاہل کہنے پر ان سے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا پروگرام دیکھے بغیر ساحل عدیم صاحب کے موقف کو سمجھنا ممکن نہیں۔ پورے پروگرام میں وہ یہ بات ثابت کرنے میں لگے رہے کہ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے اسلام نے عورت کو حقوق دیے ہیں اور موجودہ طاغوتی سرمایہ دارانہ نظام میں وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کیا کیا ذرائع اختیا ر کرسکتی ہے۔ بچیوں کی شادی کے حوالے سے والدین کے کردار کی کج رویوں کو انہوں نے جس خوبی سے بیان کیا ہے وہ حقیقت سے بہت قریب ہے۔ لیکن لڑکی کے معافی کے اصرار پر یہ تمام مثبت بحث بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
اب آئیے وائرل مبحث کی طرف۔ لڑکی کا رویہ یقینا غلط تھا لیکن دوسری طرف ساحل عدیم صاحب کا رویہ بھی درست نہیں تھا جب کہ ان سے زیادہ بہتر رویہ کی توقع تھی۔ وہ پرسنل ہوگئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لڑکی کی معافی کی بات کو وہ ذاتی بے عزتی تصور کررہے ہوں جو کہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے مناسب نہیں جو اسلام کا داعی ہو۔ سرعام ایک ایسے پروگرام میں جسے کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہوں ایک لڑکی کویہ کہنا کہ آئی ایم سوری میری غلطی کہ میری بیٹی جاہل رہ گئی ہے۔ ہو سکتا ہے سائیکولوجی میں یہ سمجھایا جاتا ہو لیکن ہمارا معیار
اگر اسلام ہے تو یہ بات بالکل مناسب نہیں۔ نبی اکرمؐ سے بڑھ کر داعی کون تھا لیکن ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ آپؐ عام آدمی کو جاہل کہہ رہے ہوں، کسی خاتون کو جاہل قراردے رہے ہوں۔ ابو جہل کی مثال بھی درست نہیں تھی۔ ابوجہل نے جاننے اور علم ہونے کے باوجود اسلام کا انکار کیا تھا۔ پھر وہ اپوزیشن کا سردار تھا۔ ساحل عدیم کی ملاقات مودی، ٹرمپ اور بائیڈن سے ہو تو وہاں تو یہ سخت لب ولہجہ اختیار کرلیں لیکن ایک عام فرد کے لیے یہ انداز مناسب نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام اور میڈیا جس طرح اسلام اور لوگوں کے ذہنوں پر حملہ آور ہے اس کے بعد لوگ اگر اسلام کے بارے میں کنفیوزڈ ہیں تو ہمیں بہت نرم الفاظ اور لب و لہجے میں بات کرنا ہوگی۔ اگر ہم لوگوں تک اسلام کی دعوت لے کر جانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی عزت نفس کے بارے میں بہت حساس ہونا چاہیے۔ سرعام کسی فرد کی بے عزتی!! کوئی داعی اس کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اسلام کی دعوت دیتے ہوئے نہ معذرت خواہانہ لب ولہجہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے نہ شرمندہ ہونے کی گنجائش ہے نہ دفاعی رویہ اختیار کرنے کی اور نہ ہی کسی فرد کی بے عزتی کرنے کی، یہ بہت حکمت اور تحمل کا کام ہے۔۔۔ خیال خاطر احباب چا ہیے ہر دم۔۔۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔