121 ہندوؤں کی موت یوپی سرکار کے گلے کا پھندا بن گئی

168

نئی دہلی : بھارت کی ریاست اتر پردیش میں 2 دن قبل ایک “سَت سَنگ” کے بھگدڑ مچنے سے 121 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ واقعہ ضلع ہاتھرس کا ہے جہاں دریائے گنگا کے کنارے ایک لاکھ سے زائد افراد ساکار ہری عرف بھولے بابا کا خطاب سُننے اور اُن سے آشیرواد لینے جمع ہوئے تھے۔

دریا کے کنارے کیچڑ میں ایک لاکھ سے زائد پیروکاروں کو جمع کرنے کے ذمہ دار بھولے بابا اس حادثے کے فوراً بعد ایسے غائب ہوئے کہ اب تک دکھائی نہیں دیے۔ اتر پردیش کے ایک سابق ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ بھولے بابا کا ریکارڈ اچھا نہیں۔ ان پر بچوں سے زیادتی کے مقدمات بھی ہیں۔

پولیس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ اُس نے اِتنی بڑی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کا معقول انتظام نہیں کیا تاہم سب سے زیادہ تنقید اتر پردیش کی سرکار کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

 یو پی کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپوزیشن کی جماعتوں کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کے علاوہ یو پی سرکار بھی اس سانحے کی ذمہ دار ہے کیونکہ ایک لاکھ سے زائد افراد کے جمع ہونے کا امکان تھا مگر سیکیورٹی کا معقول انتظام نہیں کیا گیا اور لوگوں کے لیے پینے کے پانی سمیت بہت سی بنیادی سہولتوں کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

اُتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے مگر اب اپوزیشن ڈٹ کر اس کا سامنا کر رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ جب عوام کے لیے کچھ کرنے کی بات آتی ہے تو بی جے پی کو سانپ سُونگھ جاتا ہے۔ اِتنا بڑا سانحہ ہوگیا اور بھولے بابا کا سراغ لگانے میں پولیس اب تک ناکام ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس میں جائے حادثہ کا دورہ کیا اور سرکاری خرچ پر زخمیوں کے مکمل علاج کی ہدایت کی مگر اِس عمل سے وہ تنقید کرنے والوں کا منہ بند رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

واضح رہے کہ بھارت میں اسے بابا عام ہیں جو اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے سادہ لوح لوگوں کو مذہب کے نام پر بے وقوف بناکر اُن کی جیبیں خالی کرالیتے ہیں۔ بھولے بابا کا شمار بھی ایسے ہی باباؤں میں ہوتا ہے۔ اُن کا لائف اسٹائل خاصا پُرتعیش ہے۔ وہ شاندار کپڑے پہنتے اور بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ مندروں اور آشرموں میں بھگدڑ کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ روحانی علاج اور بھگوان سے ملوانے کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانے والے ڈھونگیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اُن پر اعتقاد رکھنے والوں کی تعداد بھی میں اضافہ ہو رہا ہے۔