عام آدمی کی کہانی ابن آدم کی زبانی

353

اے ابن آدم تمہارے حال اور بے بسی پر دل بہت روتا ہے تو قلم اُٹھا کر تمہارے مسائل لکھ دیتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ شاید ارباب اقتدار آپ کو کوئی بڑا ریلیف دے دیں۔ ملک کی کسی سیاسی جماعت نے بجٹ 2024ء کو اچھا نہیں کہا۔ پیپلز پارٹی جو خود لوٹ مار کی ماہر جماعت ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ اس بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف نہیں ملا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بنایا ہو ہے اور یہ عوام دشمن بجٹ ہے ہم اس بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ دوسری طرف آصفہ زرداری نے وفاقی بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے ایک اچھا اور مضبوط سیاسی بیان دیا کہ اس بجٹ میں کسانوں، مزدوروں، غریبوں کے لیے بجٹ میں کچھ ریلیف نہیں رکھا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے کہا کہ 12 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس ختم کیا جائے، اتنی مہنگائی ہے کہ 12 لاکھ نہیں بلکہ 20 لاکھ آمدنی تک ٹیکس ختم کیا جائے۔ متحدہ نے زرعی ٹیکس لگانے کا پرانا مطالبہ پھر کردیا، ہر جماعت زرعی ٹیکس کا مطالبہ کرتی ہے مگر اسمبلیوں میں موجود جاگیردار ایسا نہیں ہونے دیتے۔ EOBI کے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ بھی سامنے آیا مگر مجھے افسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں EOBI کی طرح کے ادارے موجود ہیں وہاں اتنا پیسہ دیا جاتا ہے کہ وہ بزرگ اور اس کی بیوی آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم 8 ہزار سے 12 ہزار ماہانہ EOBI دے رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی معاشرتی ناانصافی ہے۔ کم از کم EOBI 50 ہزار سے شروع ہونا چاہیے۔ یہ ایک غریب مزدور کا حق ہے مگر انصاف کرنے والوں کو معاشرتی ناانصافی نظر نہیں آتی۔ ایک بار پھر عوامی حقوق کی جنگ کے لیے جماعت اسلامی میدان عمل میں نکل آئی ہے بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے اگر آپ متاثر ہیں تو اگر نہیں بھی ہیں تو آپ کو اس احتجاج کو کامیاب بنا کر حکومت اور اس کے حواریوں کو بتانا ہوگا کہ ہم مردہ قوم نہیں ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ کینیا میں ٹیکسوں کے خلاف عوام نے ایک مضبوط مظاہرہ کرکے آئی ایم ایف کی غلام حکومت کو سبق دیا۔ میں تو ہمیشہ سے حکومت کو یہ ہی مشورہ دیتا چلا آیا ہوں کہ ملک سے جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کریں، دولت کی مساوی تقسیم کریں، غریبوں کا خون چوسنے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کے گرد گھیرا تنگ کرکے اُن پر بھاری ٹیکس لگائیں، فوری طور پر اعلان کریں کہ بجلی کے تمام سلیب ختم کرکے بجلی کے بل کو ٹیکس فری بل بنایا جارہا ہے مگر آپ میں آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت ہیں کہا ادھر آئی ایم ایف والے فرماتے ہیں غریبوں کا خیال رکھیں امیروں پر ٹیکس لگائیں آپ اس کے خلاف کام کرتے ہیں اس طرح سے تو زندگی بھر ملک میں استحکام نہیں آسکتا آپ کی حکومت سے تو KE کنٹرول نہیں ہوتا عوام بجلی کے بل بھر رہے ہیں اس کے باوجود لوڈشیدنگ جاری ہے گرمی اپنے عروج پر ہے جو بجلی چوری ہورہی ہے اس کے پیسے بھی عوام سے زبردستی وصول کیے جارہے ہیں۔ KE کو 20 سال کے لیے لوٹ مار کا لائسنس دینے والے ملک کے حکام ہوں، ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہو یا کوئی اور طاقتور ادارہ سب پاکستان کے اور عوام کے دشمن ہیں، ظلم حد سے بڑھ چکا ہے عوام کے پاس روٹی کھانے کو پیسے نہیں ہیں غریب اور مڈل کلاس بیوی کے زیور بیچ چکا گھروں کا سامان فروخت کرچکا مگر اس سفید ہاتھی جس کے پیٹ میں ملک کے کئی حرام خور موجود ہیں اس کا پیٹ نہیں ہوتا۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے عدالتوں میں کیس داخل کیے مگر کسی عدالت نے انصاف فراہم نہیں کیا۔ مجھے 54 ہزار کا بل موصول ہوا جو میں نے اپنے ہی گھر والوں سے چندا کرکے جمع کروایا۔ میری آدھی سے زیادہ تنخواہ تو KE نے لے لی اب باقی میرا گھر میاں صاحب یا KE کا سربراہ آکر چلائے گا۔

پورا سوشل میڈیا شور کررہا ہے مگر غلاموں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ ایسا لگتا ہے سب نے اپنی اپنی قیمت وصول کررکھی ہے۔ واپڈا کے افسر کا بل دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ان کو ہزار یونٹ بجلی فری ملتی ہے۔ انہوں نے پورے مہینے 1200 یونٹ بجلی استعمال کی اور اُن کا بل تھا 1200 روپے۔ یہ مراعات تمام بڑے سرکاری افسران کو حاصل ہے چاہے اُس کا تعلق فوج سے ہو عدلیہ سے ہو یا

بیوروکریسی سے ہو حد تو یہ ہے کہ تمام اسمبلیوں کے ارکان، سینیٹرز کو بھی یہ مراعات دی جاتی ہے، نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی مفت یونٹ ملتے رہتے ہیں، مفت بجلی کے اس طریقے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ارے حکمرانوں تم نے تو اللہ کے گھروں کو یعنی مساجد، امام بارگاہوں تک کوئی معاف نہیں ان عبادت گاہوں کے بل ہزاروں میں آرہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب صرف باتیں کرنے سے ملک میں بہتری نہیں آسکتی اگر آپ پاکستانی عوام سے مخلص ہیں تو عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالے بغیر بھی بہت کچھ ممکن ہے، مگر آپ میں اتنا حوصلہ نظر تو نہیں آتا اگر بجلی چوری، گیس چوری، ٹیکس چوری کا خاتمہ اور اشرافیہ کو مفت بجلی، مفت پٹرول و دیگر مراعات دینا بند کردیا جائے تو ملک کی معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔ واپڈا کے 48 ہزار آفیسرز، 1 لاکھ 5 ہزار ملازمین سالانہ 39 کروڑ 10 لاکھ فری یونٹ اور 5 ارب 25 کروڑ روپے کی سالانہ فری بجلی استعمال کررہے ہیں اور اس کے پیسے عوام ادا کررہی ہے۔ واپڈا کے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر مراعات بے حد اچھی ہے پھر مفت بجلی ان کو کیوں دی جاتی ہے۔ بیوروکریسی سمیت تمام اداروں سے مفت بجلی کا یہ نظام ختم کیا جائے، افسران کے AC بند کیے جائیں، AC والی گاڑیاں حکومتی تحویل میں لے لی جائیں، عیاشی کو ختم کیا جائے اگر نہیں تو افسران کے بڑے بڑے کمروں کو توڑ کر ایک ہال بنا کر وہاں 4 ائرکنڈیشن لگا کر تمام افسران کو ایک ساتھ بٹھایا جائے، بند کمروں میں رشوت لینے کا سلسلہ بھی بند ہوسکتا ہے۔