تری آواز مکے مدینے

286

امیر جماعت پاکستان جناب حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے ’’حق دو عوام تحریک‘‘ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں میں حکومت کی جانب سے ظالمانہ اضافے کے خلاف 12 جولائی کو اسلام آباد میں دھرنے کے انعقاد کا اعلان گزشتہ روز لاہور میں اپنی ایک پریس کانفرنس کے توسط سے کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اعلان ہر پاکستانی کے دل کی آواز اور اس کے جذبات کی بروقت ترجمانی کے مصداق ہے۔ اس دھرنے کا اعلان سُن کر بے اختیار یہ شعر ذہن میں در آیا۔

موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے

آج وطن عزیز کے عوام حکمران طبقے کی نااہلی، نالائقی اور خود غرضی کی بنا پر جن گمبھیر اور سنگین مسائل سے دوچار ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں، اور صورت حال ’’عیاں راچہ بیاں‘‘ کے مترادف ہے۔ ملک کا بچہ بچہ تک اس تلخ ترین حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ حکمران طبقہ خود اپنی مراعات اور مفت میں حاصل کردہ بے پناہ فوائد اور ثمرات سے تو رتی برابر بھی دستبردار نہیں ہے، البتہ اس نے 10 کروڑ سے بھی زائد سطح غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے عوام سمیت تمام اہل ملک کے لیے اپنی سفاکانہ، بے حسی اور ڈھٹائی پر مبنی پالیسیاں تشکیل دے کر ان کے لیے معمول کی زندگی کو بسر کردینا ایک طرح سے یکسر محال بلکہ ناممکن ہی بنا ڈالا ہے۔ آئے دن تیل، گیس، بجلی اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے محابہ اضافے نے دہاڑی دار افراد ہی نہیں بلکہ معقول ماہانہ مشاہرہ لینے افراد کی بھی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے۔ اس پر مستزاد حالیہ آئی ایم ایف کے حکم پر پیش کردہ پاکستان کا سالانہ بجٹ تو اہل وطن کی اکثریت کے لیے ایک طرح سے ’’مرے پہ سو درے‘‘ اور ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی مانند ثابت ہوا ہے۔ اپنی آمدنی میں بمشکل گزارہ کرنے والے تنخواہ دار طبقے کی تو ایک طرح سے باقاعدہ دردناک چیخیں ہی نکل گئی ہیں جنہیں بے حمیتی، بے حسی، ڈھٹائی اور بے غیرتی کی وجہ سے ثقل سماعت کے مرضِ کہنہ میں مبتلا حکمران طبقے کے سوا ہر کوئی باآسانی سُن ہی نہیں رہا بلکہ اس پر بہت زیادہ بے قرار اور مضطرب بھی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت ان میں سب سے نمایاں اور بڑھ کر ہے۔ کیوں کہ خود اس کا اپنا تعلق بھی متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ انجینئر نعیم الرحمن نے جماعت کے متعلقہ فورم اور پلیٹ فارم سے باقاعدہ مشاورت کے بعد مذکورہ دھرنے کا اعلان کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے ذمے داران کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے۔ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں، گیس، بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف 12 جولائی کو جماعت اسلامی کے دیے جانے والی اس دھرنے کا عوامی اور سماجی سطح پر بھرپور خیر مقدم بھی اس امر کا مظہر ہے کہ گویا ایک طرح سے ’’سوکھے دھانوں پر پانی‘‘ پڑ گیا ہے اور گھٹاٹوپ مایوسی کے اندھیرے میں اُفق پر ایک روشنی کی ایسی کرن نمودار ہوئی ہے جو ان شاء اللہ آگے چل کر کامیابی کی صورت میں سارے ملک ہی کو روشن اور منور کر ڈالے گی۔

ایک طرف ظالم، سنگ دل، بے حس حکمران آئے دن تیل، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں تو دوسری جانب پی پی پی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل کی جانب سے ارکانِ قومی اسمبلی کے ماہانہ مشاہروں اور دیگر پہلے سے ملنے والی بے تحاشا مراعات میں گزشتہ دنوں پیش کیا جانے والا بل بہت زیادہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان عوام کو دینے کا لالی پاپ پر مبنی پی پی پی کا نعرہ کتنا جھوٹا، بے ہودہ اور فرسودہ ہے، وہ تو سبھی پر آشکار ہوچکا ہے لیکن اس پر مستزاد مذکورہ نام نہاد نعرے کی علمبردار جماعت کی طرف سے مذکورہ پیش کردہ قرار داد نے اس کی قیادت کو عوام کے سامنے بالکل ہی بے نقاب بلکہ معاف کیجیے گا عریاں کر ڈالا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں تو دکھاوے کے طور پر مذکورہ قرار داد کی مخالفت کی گئی تاہم دوسری جانب کے پی کے اسمبلی اور وزرا وغیرہ کے لیے مزید مراعات، تنخواہوں وغیرہ میں اور زیادہ اضافے کو اپنی ترجیح اوّل کے طور پر پیش کرنا اس امر کا غماز ہے کہ ہماری نام نہاد عوامی حقوق کی علمبردار تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کس قدر منافقانہ، گھنائونے اور مکروہ چہرے اور کردار کی حامل ہیں۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی اس مذموم خبر نے بھی اہل ِ وطن کے زخموں پر نمک پاشی ہی کی ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم ہائوس کی تزئین و آرائش کے لیے 34 کروڑ جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے صدارتی محل کے لیے پہلے سے مختص کردہ اربوں روپے کو ناکافی پا کر ایون صدر کے اخراجات کے لیے ایک ارب روپے طلب کیے ہیں جو مبینہ طور پر ہر دو حکومتی مقتدر شخصیات کے لیے جاری بھی کردیے گئے ہیں۔ اگر بڑے میاں تو بڑے میاں ہیں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ ہیں اور کسی سے اسراف و تبذیر اور سرکاری خزانے میں لوٹ مار کرنے سے قطعی پیچھے نہیں ہیں۔ مراد ہے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے، شاہ صاحب موصوف کی وزارت علیا میں وطن عزیز کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ زوال، بدنظمی، بدعنوانی، بدامنی کی منازل بڑی تیزی اور سُرعت سے طے کرتا چلا جارہا ہے۔ موجودہ وقت میں صوبہ سندھ دیگر صوبوں کے مقابلے میں عالمی اور ملکی مالیاتی اداروں کا سب سے زیادہ مقروض صوبہ ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بھی ہر برس وفاق کی جانب سے کھربوں روپے ملتے ہیں، لیکن اس کے باوصف صوبہ سندھ میں قدم قدم پر غربت کے المناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اہل صوبہ کی اکثریت بہت زیادہ مہنگائی، بدامنی اور روزگار کے شکنجے میں سطح غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ سندھ کے شہر، قصبات اور دیہات ایک طرح سے کھنڈر بن چکے ہیں۔ عوام کے لیے بنیادی سہولتوں کا حصول ایک تشنہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔ آج کل صوبہ سندھ میں شدید ترین گرمی پڑ رہی ہے اور اس پر گھنٹوں پر محیط طویل ترین بجلی کی لوڈشیڈنگ نے رہی سہی بھی کسر پوری کردی ہے۔ ایسی سنگین اور مخدوش صورت حال میں گزشتہ دنوں کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدر آباد اور سندھی نیوز چینل کے توسط سے آنے والی افسوسناک خبر نے سارے اہل صوبہ ہی کو حیران پریشان بلکہ مشتعل کر ڈالا ہے کہ اس خبر کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کا سالانہ خرچ 40 کروڑ روپے ہے۔ اس ہیلی کاپٹر کے لیے ایک چیف پائلٹ سمیت 9 معاون پائلٹ، 25 افسران اور 16 دیگر افراد پر مشتمل فوج ظفر موج مقرر کی گئی ہے اور وزیراعلیٰ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ ہیلی کاپٹر کے لیے مختص کردہ 40 کروڑ روپے سالانہ میں صوبائی محکمہ خزانہ مزید 3 کروڑ 50 لاکھ روپے کا اضافہ کرے کیوں کہ 40 کروڑ روپے ناکافی ہیں۔

تفو بر تو ای چرخ گردوں تفو

سندھ کے عوام اور نوجوان مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے آئے دن خودکشیاں کرنے پر مجبور اور نان شبینہ کے حصول تک کے لیے بھی محتاج ہوچکے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کس ظالمانہ بے دردی سے اہل صوبہ کا پیسہ لٹا رہے ہیں لیکن ذرا رُکیے، ذرا ٹھیریے کہ حقیقت تلخ ترین ابھی جاری و ساری ہے جو سندھ حکومت کے ذمے داران کی بے حسی، ڈھٹائی اور بدعنوانی پر دال ہے۔ اخبار کے مطابق حکومت سندھ یعنی وزیراعلیٰ کی جانب سے ایک اور نئے ہیلی کاپٹر کی خریداری کے لیے بجٹ میں 4 ارب 93 کروڑ روپے کی کثیر رقم رکھی گئی ہے اور کل رقم کا تخمینہ 5 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس نئے ہیلی کاپٹر کے لیے بھی من پسند ملازمین کی ایک نئی فوج ظفر موج بھرتی کی جائے گی اور اہل سندھ کے خون پسینے کے ٹیکس کی رقم ’’مال مفت، دل بے رحم‘‘ کے مصداق بڑی بے دردی سے لٹائی جائے گی۔ کاش! ہیلی کاپٹر کے لیے بجٹ میں مختص کردہ زرکثیر 5 ارب روپے سندھ کے ویران اور کھنڈر بن جانے والی طبی مراکز یا کسی اور بہتر مد میں استعمال کیے جاتے لیکن ظاہر ہے اس سے بدعنوانی کی بہتی گنگا میں ہاتھ رنگنا مشکل ہوجاتا۔ سندھی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ نے حالیہ بجٹ میں صوبائی وزرا، مشیروں، کمشنرز، ڈی سیز، سندھی سیکرٹریٹ اور ریونیو بورڈ کے لیے 1800 سی سی اور دوسری بڑی پرتعیش گاڑیاں خریدنے کے لیے تقریباً ساڑھے 7 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ایسے میں اہل وطن امیر جماعت کے دھرنے کے اعلان پر کیوں بے ساختہ نہ کہیں کہ ’’تری آواز مکے مدینے‘‘۔