گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا گیا جس کہ بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ آپریشن تحریک انصاف کو مزید دیوار سے لگانے کی سازش ہے جبکہ وزیر اعظم ہائوس اس آپریشن کو پائیدار امن استحکام کی ایک کوشش قرار دے رہا ہے حکومتی ذرائع سے کہا جارہا ہے کہ یہ آپریشن کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ یہ آپریشن عزم استحکام ملک میں سیاسی استحکام کی ایک کوشش ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس فوجی آپریشن کو حکومت کی جانب سے ایک سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے آپریشن عزم استحکام پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا مولانا فضل الرحمن صاحب کا موقف ہے کہ اس آپریشن عزم استحکام سے موجودہ حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ آپریشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہے جو ملک کو مزید عدم استحکام کی جانب لے جائے گا۔ مولانا نے شہباز حکومت کو بے بس حکومت قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ شہباز شریف وزیر اعظم نہیں ہیں صرف کرسی کے مزے لے رہے ہیں۔
اگر ہم موجودہ حالات کی تمام تر ذمے داری اسٹیبلشمنٹ کے سر ڈال دیتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی ناانصافی ہوگی دراصل بد قسمتی سے ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا گٹھ جوڑ برسوں سے چلا آ رہا ہے جس نے جہاں سیاست کو نقصان پہنچایا وہاں دوسری جانب ادارے بھی شک کی نظر سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ کسی بھی جانب سے یہ نہیں سوچا گیا کہ ملکی سیاسی استحکام سب کے حق میں بہتر ہوسکتا تھا اگر ہر ایک اپنی سیاسی آئینی حدود میں رہتے ہوئے چلتا تو شاید آج وطن عزیز کو کسی بھی آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 2018 ہو یا 2024 ہر ایک اپنے سیاسی فائدے کے لیے اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوا اور سیاسی استحکام اور ملک کے آئین کو نقصان پہنچایا دراصل اس وقت ملک کو جہاں معاشی بحران کی جانب دھکیل دیا گیا ہے وہاں ملک کو سیاسی عدم استحکام کی جانب بھی دھکیلنے کی سازش کی جارہی ہے۔
شہباز حکومت شروع دن سے ایک کمزور بے بس حکومت ثابت ہوئی ہے جس نے ابھی تک عوام کو صرف معاشی بحران کی جانب دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں کیا ساتھ ہی اس کارنامے میں پیپلز پارٹی اور تمام تر ذاتی مفادات کی جماعتیں غریب عوام کی بربادی کے ذمے دار ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کا کردار بھی ذاتی مفادات کی کوشش کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا غریب کے گھر کا چولہا بند ہوتا چلا جارہا ہے ملک معاشی بحران کی جانب گامزن ہے مہنگائی بیروزگاری روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حکومت کسی بھی بحران پر قابو پاتی دکھائی نہیں دیتی ایسے میں اپوزیشن دھاندلی، خان صاحب کی رہائی، اقتدار ہمیں دو کی صدائیں بلند کرتی ہوئی ملک کو مزید بحران کی جانب لے جانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دھاندلی ہر دور میں ہوئی ہے۔ دھاندلی کا شور اپنے آپ کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دھاندلی کے نتیجے میں فوری انتخابات ممکن ہی نہیں اور اگر کسی سے اقتدار چھین کر آپ کو دے بھی دیا جائے تو کیا سامنے والا خاموش بیٹھ جائے گا ایسا ہرگز ممکن نہیں ہوگا دراصل ہمیں پائیدار سیاسی استحکام کے لیے اس بوسیدہ نظام سے نکلنے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بھی کسی کے بھی مینڈیٹ پر ڈاکہ نامار سکے ساتھ ہی ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت فوری خان صاحب کی رہائی ممکن نہیں کچھ مزید وقت ابھی خان صاحب کو اندر رہنا ہوگا خان صاحب درست ہیں یا غلط اس کا فیصلہ بھی ادارے کریں گے۔ ساتھ ہی خان صاحب کو عوامی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاسی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس وقت ملک کو سیاسی معاشی بحران کا سامنا ہے تو غریب عوام معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا ملک کو کسی طرح مسائل کے دلدل سے نکلا جائے۔
جہاں وزیر اعظم سیاسی استحکام لانے کے لیے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کر رہے ہیں وہاں سب سے پہلے ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آپریشن معاشی استحکام کا اعلان کریں جس میں اپوزیشن سمیت ملک کی تمام تر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو دعوت دیںاور ملک و قوم کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے پھر آپریشن عزم استحکام نہیں کانفرنس عزم سیاسی استحکام کا آغاذ کیا جائے جس میں ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ایک موثر حکمت عملی بنائی جائے تاکہ ملک میں سیاسی معاشی استحکام قائم ہوسکے اس ملک کو کسی بھی نام سے آپریشن کی جانب نہیں دھکیلا جائے بلکہ اس ملک کو ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہتر ہوگا اگر موجودہ حکومت کی نیت کسی سے بھی سیاسی انتقام کی نہیں تو آپریشن عزم استحکام کو کانفرنس عزم استحکام کا نام دیا جائے تاکہ ملک کو مزید خدشات سے محفوظ رکھا جائے۔