دیکھیں کیا گزرے ہے …

226

امریکا میں صدارتی انتخابی مہم زور پکڑ چکی ہے۔ ایسے میں ایک معاملہ بہت کمزور پڑا ہوا ہے۔ ڈیموکریٹس بھی پریشان ہیں کہ ایسی صورتِ حال میں کریں تو کیا کریں۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ صدارتی انتخاب میں جب محض پانچ ماہ رہ جائیں گے تب اُن کے لیے امیدوار تبدیل کرنے کا مرحلہ آئے گا۔

صدر جو بائیڈن کی صحت کے حوالے سے جتنے بھی خدشات ذہنوں میں پائے جاتے تھے وہ سب کے سب اب درست ثابت ہوچکے ہیں۔ ایک طرف تو صدر بائیڈن کو اپنی عمر کے باعث صحت کے حوالے سے پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف گھر میں بھی سب کچھ اچھا نہیں چل رہا۔ اُن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو عدالت سے سزا سنائی جاچکی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی برسرِ منصب امریکی صدر کے بیٹے کو کسی بھی جرم میں کوئی باضابطہ سزا سنائی گئی ہے۔ صدر بائیڈن پہلے ہی بہت الجھے ہوئے تھے۔ ہنٹر کو عدالت سے سزا سُنائے جانے کے نتیجے میں اُن کے ذہن پر بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔

ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ صدر بائیڈن کے حواس قابو میں نہیں۔ وہ گفتگو کے دوران بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ اچانک سُنّ سے رہ جاتے ہیں۔ ریلیوں سے خطاب کے دوران بھی صدر بائیڈن پر ایسا وقت آتا رہا ہے جب اُنہیں یاد ہی نہ رہا کہ اب کیا بولنا ہے، کیا کرنا ہے۔ ایک حالیہ تقریب میں سابق صدر بارک اوباما اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔ مجمع سے خطاب کے بعد صدر بائیڈن اچانک بُت بنے رہ گئے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ بات ختم کرلی ہے تو اب اسٹیج سے اُترنا بھی ہے۔ اِس موقع پر بارک اوباما آگے بڑھے اور اُنہیں سنبھالا۔

صدر بائیڈن کو سب سے بڑا دھچکا حالیہ مباحثے سے لگا ہے۔ اس مباحثے میں، جسے امریکا میں صدارتی امیدواروں کے اعتماد کا گراف جانچنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، امریکا کے ووٹرز نے دیکھا کہ سابق صدر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل صدر بائیڈن خاصے کمزور دکھائی دیے۔ اُن میں اعتماد کا بھی فقدان تھا اور وہ حواس پر قابو پانے میں بھی زیادہ کامیاب نہ رہے۔ کئی مواقع پر وہ کُھل کر اپنی بات نہ کہہ پائے اور محض بڑبڑاکر رہ گئے۔ بعض سوالوں کے جواب میں اُنہوں نے غلط بیانی کی۔ ہوسکتا ہے اُنہوں نے یہ دانستہ نہ کیا ہو تاہم قوم نے تو دیکھا۔ جسے جو نتیجہ اخذ کرنا تھا وہ نتیجہ اُس نے اخذ کرلیا۔

ٹرمپ سے مباحثے میں صدر بائیڈن کی شکست نے ڈیموکریٹس کی نیندیں اُڑادی ہیں۔ اُنہیں اِس بات کا دُکھ تو ہے ہی کہ اُن کا امیدوار انتہائی کمزور پڑچکا ہے مگر اِس سے زیادہ دُکھ دینے والی بات یہ ہے کہ امریکا بھر میں یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ صدر بائیڈن کو انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانا چاہیے۔ سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین دن رات اُن پر زور دے رہے ہیں کہ اُن کے لیے صدارتی دوڑ میں شریک رہنا ممکن نہیں رہا اس لیے بہتر ہوگا کہ گھر بیٹھیں یعنی مزید 6 ماہ امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے پر خاطر خواہ توجہ دیں۔ دوسری طرف ووٹرز بھی اُن سے کہہ رہے ہیں کہ مزید چار سال کے لیے ایوانِ صدر میں براجمان رہنے کا تصور ذہن سے کُھرچ کر پھینک دیں۔

چند روز قبل امریکی صدر نے کیمپ ڈیوڈ میں اپنی فیملی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصد مشاورت تھا۔ فیملی کا مشورہ ہے کہ جو بائیڈن انتخابی دوڑ سے الگ نہ ہوں کیونکہ صدارتی انتخاب اب زیادہ دور نہیں رہ گیا۔ فیملی نے مباحثے میں ٹرمپ کے ہاتھوں جو بائیڈن کی شکست کا سارا ملبہ مشیروں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اچھی طرح تیاری نہیں کرائی۔ بائیڈن فیملی کے اس اعتراض کو بھی امریکی میڈیا نے مرچ مسالا لگاکر بیان کیا ہے اور خوب ہی چٹخارے دار تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ تیاری کچھ زیادہ ہی کروائی گئی اور مشق بھی بہت زیادہ کروائی گئی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صدر بائیڈن عمر کے اِس مرحلے میں کسی بھی حوالے سے بہت زیادہ تیاری کا بوجھ برداشت کرنے کے پوزیشن میں نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ صدر بائیڈن اگر کسی نہ کسی طور انتخابی مہم کا بوجھ برداشت کر بھی گئے اور دوبارہ صدر منتخب ہو بھی گئے تو اگلے چار سال میں کیا ہوگا۔ تب تو اُن کی صحت کا گراف مزید گرچکا ہوگا۔ وہ اس وقت جتنے سُنّ ہیں اُس سے کہیں زیادہ سُنّ وہ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں ہوں گے۔ آج کی دنیا میں امریکی صدر کو طاقتور ترین شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ کیا جو بائیڈن 82 سے 86 کی عمر میں یہ بوجھ برداشت کر پائیں گے؟

ڈیموکریٹس پریشان ہیں کہ اگر اِس مرحلے پر جو بائیڈن انتخابی دوڑ سے الگ ہوئے تو نئے امیدوار کا انتخاب کیسے ہوگا اور اُسے ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ قوت کے ساتھ کیونکر کھڑا کیا جاسکے گا۔ ایسی ہی الجھن سے امریکی ووٹرز بھی دوچار ہیں۔ اگر وہ جو بائیڈن کو مسترد کرنے کا بھی سوچیں تو مسئلہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی بہت زیادہ ہے اور اُن کی جذباتیت سے سبھی واقف ہیں۔ وہ تارکین ِ وطن کے خلاف آپریشن کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دوبارہ وائٹ ہاؤس کے مکین ہوئے تو ملک میں مزید گڑبڑ پھیلے گی۔ امریکی ووٹرز کے لیے تو اِدھر پہاڑ، اُدھر کھائی والا معاملہ ہے۔

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک

(یہ مضمون برطانوی اخبار گارجین کے مضمون اور امریکی خبر رساں اداروں کی فیڈ سے تیار کیا گیا ہے۔)