ٹیکس لگاکر صنعتوں کو تباہ کیا جارہا ہے،بوجھ سے برآمدات میں اضافہ ناممکن ہے

85

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) ٹیکس لگا کر صنعتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے‘ بوجھ سے برآمدات میں اضافہ ناممکن ہے‘ شرح سود بہت بلند ہے‘ بجٹ میں ایکسپورٹ کا ہدف نہیں رکھا گیا ‘ اشرافیہ نوازی نے معیشت میں بہتری کے امکان کو ختم کر دیا ‘ حکومت نے ٹیکسوں کا نظام مزید ظالمانہ بنا دیا ‘ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ کے نام پر500 ارب کی رشوت دی جا رہی ہے‘ حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 25 فیصد تک پہنچ گئے۔ان خیالات کا اظہار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کامرس کی چیئرپرسن انوشہ رحمن‘ رکن قومی اسمبلی، ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر مرزا اختیار بیگ اور صنعتکار ڈاکٹر حنیف مغل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ “بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار سے صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہے؟” انوشہ رحمن نے کہا کہ پاکستان میں سرپلس برآمدات کی کمی ہیں‘ صنعتوں پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر برآمدات میں اضافہ اور صنعتی ترقی نا ممکن ہے‘ صنعتوں کو چلانے کے لیے ٹیکسوں اور شرح سود میں کمی کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ملک میں ٹیکسوں کی بھر مار کے ساتھ شرح سود بھی بلند ہے‘ ان حالات میں صنعتی ترقی کم ہو تی جا رہی ہے‘ دوسری جانب چین پاکستان میں اپنی مصنوعات کی ڈمپنگ کر رہا ہے‘ اس سے چین کو فرق ہی نہیں پڑتا لیکن پاکستان کی تو مسابقت ہی کم ہو جائے گی‘ سروسز کی ایکسپورٹ پر بھی فوکس کرنا چاہیے، آئی ٹی کے علاوہ ہماری کوئی سروسز ہی نہیں جو ہم ایکسپورٹ کر رہے ہیں، فلپائن پوری دنیا کو نرسز ایکسپورٹ کر رہا ہے‘ دودھ پاکستان سے زیادہ سستا چین میں دستیاب ہے‘ وزارتِ تجارت یہ کہہ رہی ہے زرعی اشیا برآمد کر یں گے‘ چین کو چیری برآمد کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ چیری آپ کے پاس کونسی زیادہ ہے کہ اس کو ایکسپورٹ کریں۔مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ میں ایکسپورٹ کا ہدف نہیں رکھا گیا جس سے یہ پتہ چلتا ہے حکومت کی ترجیحات میں ایکسپورٹ نہیں ہے‘ صنعت پر ٹیکس لگا کر صنعت کو فروغ نہیں بلکہ صنعتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے‘ ملک میں نہ صنعت چل سکے گی اور نہ برآمدات ممکن ہوں گی‘ حکومت آئی ایم ایف کے اشارے پر پاکستان کی معیشت کو دفن کر رہی ہے‘ وفاقی بجٹ میں ٹیکسز کی بہتات سے مختلف سیکٹرز کے لوگ اسلام آباد آ رہے ہیں اور وہ پریشان ہیں‘ اورنگزیب غیر سیاسی آدمی ہیں‘ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کی میٹنگز چل رہی ہیں لیکن نتیجہ کوئی سامنے نہیں آرہا ہے‘ بجٹ کی کوئی سمت نظر نہیں آ رہی ہے‘ بجٹ کا مقصد ریونیو اکھٹا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں‘ گلف ممالک اب پاکستان کو قرضہ یا ڈیپوزٹ دینے میں نہیں بلکہ یہاں کے اثاثوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں‘ ٹاولز ایکسپورٹرز سے کسٹم بھی مخصوص شرح میں ٹیکس کاٹے گا۔ ڈاکٹر حنیف مغل نے کہا کہ صنعتی ترقی تو کجا صنعتوں کو چلانا بھی ناممکن ہو تا جا رہا ہے‘ برآمدات کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے‘ بجٹ میں زبردست اشرافیہ نوازی نے معیشت میں کسی قسم کے بہتری کا امکان کو ختم کر دیا ہے اور اکنامک منیجرز کے بجٹ سے پہلے کے بے باک بیانات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے‘ وزیر خزانہ نے بجٹ سے قبل کہا تھا کہ اس بار کسی مقدس گائے کو بخشا نہیں جائے گا مگر بجٹ میں انہیں مزید نوازا گیا ہے‘ ٹیکسوں کا نظام مزید ظالمانہ ہو گیا ہے جبکہ حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 25 فیصد تک پہنچ گئے ہیں اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘ آٹے، میدہ، سوجی، فائن چوکر وغیرہ پر نصف سے ڈھائی فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عاید کر دیا ہے جو قابل مذمت ہے کیونکہ اس سے 20 کلو گرام آٹے کا تھیلا 40 روپے مہنگا اور دیگر مصنوعات میدہ اور فائن آٹے کی قیمتوں میں بھی200روپے فی بوری اضافہ ہوجائے گا‘ بجٹ سے قبل ارباب اختیار کی یقین دہانیاں قوم سے مذاق تھا اور عوام یہ توہین برداشت نہیں کریں گے‘ حکومت کا ناکام بجٹ عوام کا گلا گھونٹ رہا ہے جس سے ٹیکس گزار مزید پریشان ہوں گے جبکہ مقدس گائے کو مزید فربہ کیا جائے گا‘ بجٹ میں حقیقی معاشی اصلاحات کا نام و نشان تک نہیں‘ بجٹ سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ٹیکس کی بنیاد کو معنی خیز طور پر وسعت دینا ہی نہیں چاہتے اور اس سلسلہ میں بیانات داغنے پر اکتفا کرتے ہیں‘ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کو عام شہریوں تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ حکمرانوں نے اپنے اخراجات اور مراعات میں زبردست اضافہ کیا ہے اور اراکین اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ کے نام پر 500 ارب روپے کی رشوت دی جا رہی ہے۔