کیا انتخابی دوڑ سے صدر بائیڈن کی چُھٹی ہونے والی ہے؟

413

امریکا کے صدر جو بائیڈن کو بھولنے کی بیماری (ڈیمینشیا) لاحق ہے۔ وہ بیشتر اہم باتیں بھول جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ شدید جسمانی کمزوری کے باعث چلنے پھرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی مین اسٹریم میڈیا آؤٹ لیڈ صدر کی صحت کے حوالے سے قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اُسے دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ 

صدر بائیڈن کے حوالے سے یہ بات امریکا کے معروف صحافی اور معروف ٹی وی چینل فاکس نیوز کے سابق اینکر ٹکر کارلسن نے آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن سے انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدارتی انتخابی دوڑ میں جو بائیڈن کے رہنے کے حوالے سے معاملہ پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو نائب صدر کملا ہیرس کی نامزدگی پر مجبور ہونا پڑے۔ صدارتی انتخاب میں پانچ ماہ رہ گئے ہیں اور ایسے میں امیدوار کی تبدیلی ڈیموکریٹس کے لیے امکانات کو انتہائی کمزور کرسکتی ہے۔ ٹکر کارلسن کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بیشتر اعلیٰ عہدیداروں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کا ذہنی توازن خطرناک حد تک بگڑ بھی سکتا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ ڈیموکریٹک صدارتی انتخابی امیدوار کی تبدیلی کا ہے۔ 

اسکائی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی شہر سڈنی کے کنونشن سینٹر میں 4 ہزار افراد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ٹکر کارلسن نے کہا کہ امریکا دو راہے پر کھڑا ہے۔ صدر بائیڈن کی صحت کا گراف خطرناک حد تک گرچکا ہے۔ انہوں نے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل اپنی کمزوریوں کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ وہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ٹرمپ سے مباحثے کے دوران وہ تقریباً سوگئے تھے۔ 

ٹکر کارلسن کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو لاحق بیماریوں کے بارے میں امریکی میڈیا کا رویہ ایسا ہے جیسے اُسے بہت کچھ ابھی ابھی معلوم ہو پایا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میڈیا والوں کو سب کچھ معلوم تھا۔ قوم سے بہت کچھ چھپایا گیا ہے۔ اب معاملات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ 

سی این این اور دیگر امریکی چینلز کو شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹکر کارلسن نے کہا کہ یا تو وہ جھوٹے ہیں یا پھر گھامڑ۔ معاملہ امریکی صدر کا ہے جنہیں انتہائی اہم فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے صرف امریکا کے لیے نہیں بلکہ کئی ممالک، بلکہ خطوں کے لیے بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ ایسے میں قوم سے صدر کی صحت کے بارے میں جھوٹ بولنا اور حقائق چھپانا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ ستائش فعل نہیں۔ 

ٹکر کارلسن کا کہنا ہے کہ یہ وقت ری پبلکنز کے لیے بھی بہت نازک ہے کیونکہ 11 جولائی کو ہش منی کیس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو حتمی سزا سنائی جانے والی ہے۔ یہ سزا اُن کی پوزیشن بھی کمزور کردے گی۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کے ساتھ ساتھ امریکی عوام بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ 

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ٹکر کارلسن نے لکھا ہے کہ میں دعوے سے کہا ہوں کہ صدر بائیڈن کا کام ہوجائے گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے بیشتر اعلیٰ عہدیداروں کو اُن کی ذہنی صحت کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ ایسے میں اُن کے لیے فرائضِ منصبی بھی ڈھنگ سے انجام دینا ممکن نہ ہوگا۔ اگر اُن کے ذہن نے پوری صحت کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تو اِس اہم منصب پر اُنہیں برقرار رکھنا بھی بے عقلی کی علامت سمجھا جائے گا۔ 

ٹکر کارلسن نے مزید لکھا ہے کہ سابق صدر براک اوباما نے صدر بائیڈن کی حمایت تو کی ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ انہوں نے چند خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔ براک اوباما کو بھی صدر بائیڈن پر زیادہ اعتماد نہیں۔ عمر کے اثرات نمایاں ہیں اور ایسے میں عالمی سطح پر دور رس اثرات کے حامل فیصلے کرنے والے منصب پر اُن کا رہنا عجیب ہی لگے گا۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ محض سابق صدر نہیں ہیں بلکہ متوقع طور پر اگلے صدر بھی ہیں۔ ایسے میں اگر عدالت نے انہیں جیل میں ڈالنے کا حکم دے دیا تو کیا ہوگا؟ امریکی سیاست تو اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اس معاملے میں ڈیموکریٹک کو پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہوا تو پورا سسٹم گر پڑے گا۔ 

ٹکر کارلسن نے مزید لکھا ہے کہ براک اوباما کو یقین نہیں کہ صدر بائیڈن دوبارہ جیت پائیں گے۔ اسی لیے وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک اوپن کنونشن طلب کرنے کے حق میں ہیں تاہم انہوں نے ابھی تک کسی بھی شخصیت کے لیے حمایت کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اس کا عندیہ دیا ہے۔ صدر بائیڈن اور براک اوباما کے تعلقات کبھی بہت خوش گوار نہیں رہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔