امریکا میں عالمی نظام چلانے کا دَم خَم نہیں رہا؟ 

187

کیا امریکا موجودہ عالمی نظامِ سیاست و معیشت کو برقرار رکھ پائے گا؟ یہ سوال دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ کاروں اور سیاسیات کے اساتذہ کے ذہنوں میں گردش کرتا رہتا ہے۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران دنیا بھر میں معاشی سطح پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کے باعث امریکا اور یورپ کے لیے اپنی برتری برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ 

مغربی میڈیا کی تجزیاتی رپورٹس کے مطابق عالمی نظامِ سیاست و معیشت بظاہر مضبوط ہے۔ امریکا نے چین کے خلاف تجارتی جنگ لڑی ہے مگر پھر بھی اُس کی معیشت بہت حد تک پنپتی دکھائی دی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت عجیب لگتا ہے کہ امریکا عالمی سطح پر اپنی سیاسی و معاشی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکے گا یا نہیں۔ عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی پوزیشن بھی کمزور پڑچکی ہے۔ امریکا اور مغرب سے ہٹ کر ابھرنے والے ترقی یافتہ ممالک کی کرنسیاں بھی مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ 

یہ سمجھا جارہا تھا کہ یوکرین سے جنگ کے باعث روس نے اگر یورپ کو گیس کی فراہمی روک دی تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ جائے گا۔ جرمنی نے یہ دھچکا بخوبی برداشت کیا ہے۔ اُس کی معیشت نے یوکرین جنگ کے پیدا کردہ شدید منفی اثرات کو جھیل لیا ہے۔ 

یوکرین جنگ سے مشرقِ وسطیٰ میں بھی خام تیل کے حوالے سے کوئی دھچکا نہیں لگا۔ بحیرہ احمر اور خلیجِ عدن میں یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے حملے دنیا بھر میں اشیا کی فراہمی کا سلسلہ نہیں روک پائے ہیں۔ دوسری طرف عالمی سطح پر جی ڈی پی یعنی خام قومی پیداوار اپنی سطح بحال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں جو نقصان ہوا تھا اُس کا ازالہ ہوچکا ہے۔ 

مغرب کے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اندر ہی اندر بہت کچھ بدل چکا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ امریکا کی پوزیشن کمزور پڑچکی ہے۔ 

جس عالمی نظام نے دوسری جنگِ عظٰیم کے بعد سے اب تک دنیا کو چلایا ہے وہ بہت حد تک ناپید ہوچکا ہے۔ آج یہ نظام مکمل شکست و ریخت کے بہت نزدیک ہے۔ اس لمحے کو ٹالنے کے لیے بڑٰی طاقتوں کی طرف سے اچھی خاصی اداکاری دکھائی دے رہی ہے۔ 

امریکا کو اپنی پوزیشن کے کمزور پڑنے کا بخوبی اندازہ ہے۔ چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی جانتی ہیں کہ نیا عالمی نظام لازم ہوچکا ہے مگر سوال موجودہ فرسودہ عالمی نظام سے جان چُھڑانے کا ہے۔ اگر اِس مرحلے پر دانش مندی سے کام نہ لیا گیا تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ جائے گا اور کئی خطے جنگوں اور خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں ہوں گے۔ یوں نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کرنے سے قبل یہ فکر سبھی کو ستارہی ہے کہ موجودہ عالمی کی موت سے پیدا ہونے والی سڑاند سے کیونکر محفوظ رہا جائے۔ 

نیا عالمی نظام تیار اور نافذ کرنے میں برتی جانے والی کوتاہی شدید انتشار کی کیفیت پیدا کرے گی اور اِس کے نتیجے میں دنیا ایک بار پھر مکمل طور پر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والی حالت میں ہوگی۔ ایسے میں معاملات کو صرف جنگ کے ذریعے درست کرنے کی ذہنیت کو راہ ملے گی۔ 

ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر تمام بڑی طاقتوں کو مل بیٹھ کر کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے کسی کی جیت اور کسی کی ہار کے بجائے سب کی جیت والی کیفیت پیدا ہو یعنی سمجھوتے اور تصفیے کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے کیے جائیں۔ 

کوئی ایک خطہ پوری دنیا کو چلانے کی کوشش کرے گا تو پھر بگاڑ پیدا ہوگا اور معاملات تیسری عالمی جنگ کی طرف جائیں گے۔ اور اگر کسی بڑی عالمی جنگ کو ٹالنے میں کامیابی یقینی بنا بھی لی جائے تب بھی عالمی معاشی نظام میں شکست و ریخت سے بہت سے خطے تباہی سے دوچار ہوں گے۔