آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے اختلافات کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور حکمران اتحاد کے درمیان جو بیان بازی چل رہی ہے اس میں دلائل تو دونوں طرف وزن دار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ہم کیا افغانستان کے آگے ہاتھ جوڑیں کتنی مرتبہ تو افغان حکومت سے درخواست کرچکے ہیں کہ آپ کے ملک کی سرزمین سے ہمارے یہاں دہشت گردی ہو رہی ہے، آپ اس کو روکیں وفود کے دورے بھی ہوئے ہم سے وعدے وعید تو بہت کیے گئے لیکن عملاً کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لیے اب کچھ کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام الفاظ ان کے نہ ہوں لیکن مرکزی مفہوم وہ کھل کر کہہ چکے کہ ہمیں افغانستان میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کرنے کے لیے خود کارروائی کرنا پڑے گی۔ جواب میں افغانستان نے کہا ہے کہ جو کوئی بھی کسی بھی بہانے سے ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرے گا وہ نتائج کا خود ذمے دار ہوگا۔ آپریشن مخالف جماعتوں کا موقف ہے کہ اب تک ملک میں جو آپریشن ہوئے ہیں اس کے کیا نتائج سامنے آئے دہشت گردی کم ہوئی ہے یا پہلے سے بڑھی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہی جارہی ہے کہ بیٹھے بٹھائے افغانستان سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے اس طرح دو ملکوں کے درمیان جنگ عالم اسلام کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ پھر جواب میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ نے مذاکرات کرکے کون سی دہشت گردی پر قابو پالیا بلکہ ہمارے موجودہ حکمران عمران خان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے دور میں پندرہ سے بیس ہزار دہشت گرد اپنے گھروں کو واپس آگئے اور انہوں نے ہی ریاست میں ریاست قائم کر رکھی ہے۔
یہ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی تھی لیکن ہمارے محافظوں نے سیکورٹی ذرائع سے اپنے جن خیالات و تاثرات کا اظہار کیا ہے اس سے اس ادارے کے جذبات کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا اس میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں ان کے درست ہونے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اس پورے بیانیے میں غصہ بھی ہے،غم اور نارضی بھی ہے اور یہ آئندہ کے لیے اپنے عزم کا اظہار بھی ہے۔ اس میں ایک طرف حکومت کو جواب بھی دیا گیا اور جواب طلب بھی کیا گیا ہے ان کے اہم نکات کو دیکھتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ کہ فوج دہشت گردوں سے لڑسکتی ہے، دہشت گردی سے نہیں اس سے پوری قوم کو مل کر لڑنا ہوگا۔ سیکورٹی ذرائع نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے چودہ نکات پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے حکومتوں، عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے کردار پر شدید ترین تشویش ظاہر کی ہے اور یہ پیغام دیاہے کہ ’’موت سر پر کھڑی ہے‘‘ کریمنل مافیا چاہتا ہے کہ پاکستان سافٹ اسٹیٹ رہے۔ یہ محض فوجی ہی نہیں بلکہ سوشیو اکنامک اشو ہے فوج اپنی جگہ پر لڑرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ باقی تمام ادارے اپنا کردار کس حد تک ادا کررہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں چودہ کے چودہ کام ہوں گے تو مسئلہ حل ہوگا۔ رواں برس کے اعدادو شمار کے مطابق 126 دنوں میں 1063 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 111 جوان اور افسر شہید ہوئے جبکہ 354 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، ہم ہر لمحے لڑرہے ہیں مگر یہاں صرف سیکورٹی ادارے کی کامیابی کافی نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد خودکش حملوں اور دھماکوں میں اضافہ ہوگیا جو اعداد وشمار سے واضح ہے۔ عزم استحکام کوئی نیا آپریشن یا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ نیشنل ایکشن پلان کے چودہ نکات پر عملدرآمد کا ہی نیا نام ہے، کام سارے وہی ہیں جو پہلے سے کیے جارہے ہیں مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے سب مسلمان ہیں اور ان کے وہی پانچ فرائض ہیں مگر ان کے نام الگ الگ ہیں۔
سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ اسے آپریشن کہا جائے اسٹرٹیجی کہا جائے یا ویژن کہا جائے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد جدید اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ وہاں موجود ہے، موت سر پر کھڑی ہے اور ہم اس پر لڑرہے ہیں، ہمیں اس وقت انٹلکچوئلز کی بے حسی کا بھی سامنا ہے پاکستان کو بچانا ہے تو دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا ذرائع نے تشویش کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی بقا کی جنگ نہیں سمجھا جارہا، سیکورٹی ذرائع نے چودہ نکات پر عمل کی رفتار سست ہونے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس پلان میں مدارس کی رجسٹریشن کو شامل کیا گیا تھا مگر اب تک ملک کے 32ہزار مدارس میں سے 16786 یعنی 51.2فی صد کی رجسٹریشن ہوسکی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی حکومت اور انتظامیہ کو یہ علم نہیں کہ تقریباً آدھے مدارس کہاں ہیں کون چلارہا ہے وہاں کیا پڑھایا جارہا ہے کیا تربیت دی جارہی ہے۔ مدارس کے نصاب کو بھی ایک کرنے کی بات کی گئی مگر اس پر بھی اطمینان بخش پیش رفت نہیں ہوسکی۔ سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ میڈیا اگر صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بریفنگ سے تھک گیا ہے تو اندازہ لگائیے کہ ہم چوبیس برس سے یہ لڑائی لڑرہے ہیں جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں مگر ہمیں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں ہم درست راستے پر ہیں اور ہم میں کوئی مایوسی نہیں ہے۔ سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ لیبیا اور شام میں اس سے صرف دس فی صد دہشت گردی تھی مگر وہ تباہ ہو گئے دوسری طرف پاکستان میں اس کا مقابلہ کیا جارہا ہے امن و امان اور اعتماد کے ساتھ کاروبار بھی ہورہا ہے اور معاملات زندگی بھی چل رہے ہیں جو فوج کی مسلسل جنگ کی وجہ سے ہے اور یہ جنگ بہر صورت جاری رہے گی تاکہ وطن کو امن اور ترقی کا تحفہ دیا جاسکے۔
مندرجہ بالا تفصیلی نکتہ نظر اور سیکورٹی ذرائع کے تحفظات کے باوجود بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کرنا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی مخالفت کو سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کو مسئلے کی حساسیت کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس ملک کے زیرک سیاستدان ہیں ان کے مخالفانہ بیانات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بھی کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام ملک، عوام اور فوج کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کسی صورت نہیں ہونا چاہیے، تاہم لڑائی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان افغانستان چین اور ایران خطے میں امن کے لیے بات چیت کریں۔ یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ چین کے کہنے پر آپریشن ہورہا ہے، چین کے افغانستان سے بہت بہتر تعلقات ہیں۔ افغانستان کے اندر آپریشن کے حکومتی حامی خطے کو جہنم بنانا چاہتے ہیں۔ ہم افغانستان سے مذاکرات اور تعلقات میں پیش رفت کی حمایت کریں گے۔
ہم آخر میں یہی کہیں گے کہ کسی ملک کی فوج نے اتنی طویل جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑی پاکستانی عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں اسی لیے ہر انتخاب میں عوام جن پارٹیوں کو اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں اقتدار کے سنگھاسن پر کسی اور کو بٹھا دیا جاتا ہے لیکن عوام اسے قبول کرلیتے ہیں۔ 2013 میں عمران خان جیت رہے تھے لیکن ن لیگ کو کھلی چھوٹ دی گئی اور ان کو اپنی مرضی سے آر او لگانے کا اختیار دیا گیا وہ نمبر دو طریقے سے جتوادیے گئے، 2018 میں عمران خان کو بہت ووٹ پڑے لیکن حقیقتاً وہ 2013 سے کم ہی تھے لیکن آر ٹی ایس کو بٹھا دیا گیا اور جیتنے والوں کو ہرا کر عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا، 2024 میں تو بہت ہی زیادہ کمال ہوگیا کہ 8فروری کو جیتنے والے اپنا فارم 45لے کر اڈیالہ جیل چلے گئے اور 9فروری کو جیتنے والے اپنے فارم 47لے کر ایوان اقتدار میں آگئے عوام نے ادارے کی ’’محبت‘‘ میں اس کو بھی برداشت کرلیا جب 2013 سے آپ کی پسندیدہ حکومتیں آرہی ہیں تو پھر شکوہ شکایت کیسی؟