بھارت کی پہلی مداخلت پاکستان کے خلاف اس وقت ہوئی جب انتظامی لحاظ سے، معاشی لحاظ سے اور دفاعی لحاظ سے پاکستان انتہائی کمزور صورت حال سے گزر رہا تھا ایسے میں کشمیر میں بھارتی فوج داخل ہونا ایک پریشان کن صورتحال تھی مگر عوام خصوصاً قبائلی عوام نے سرحدوں کی نہ صر ف حفاظت کی بلکہ کشمیر کا وہ حصّہ جو اب ہمارا ہے آزاد کراکے دیا۔ دوسری مداخلت 1965 جب بھارت کی جارحیت کے خلاف عوام نے اپنی فوج کے شانہ بشانہ سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔ اس زمانے میں اگر بین الاقوامی طاقتیں سازشیں نہ کرتی تو دہلی کے لال قلعے پر پاکستانی پرچم کا لہرادیا جانا کوئی انہونی بات نہ تھی۔ جو جنگ میدان میں جیت لی گئی تھی وہ جنگ میز پر ہرادی جاتی ہے۔ اور جن کرداروں کی وجہ سے پاکستان کو یہ ہزیمت اٹھانی پڑی وہ ایوب خان تھے اور ان کو ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھارت کے دو بار کی اس جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کے دشمن یہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ جس ملک کی عوام نے اس کسمپرسی کے عالم میں اپنے سے بڑے دشمن کو چاروں خانے چت کرنے میں دیر نہیں لگائی اگر اس ملک کو اسی روح اور نظریے کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع مل گیا تو خطّے کا نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے اور پوری امت مسلمہ کی قیادت یہ نوزائیدہ ریاست کرے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ دوسری جارحیت کا جواب تو فوجی قیادت ایوب خان نے دیا تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومتوں کو بہت سے کام ایسے بھی کرنے پڑتے ہیں جس کے پیچھے شدید عوامی دباؤ ہوتا ہے مگر وہ کام حکومت کے مزاج کے خلاف ہوتے ہیں۔
پاکستان کے تمام دشمنوں نے اب یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے عوام کو کس طرح اور کن قوتوں کے ذریعے کنٹرول کرنا ہے۔ پاکستان میں اسلام کی بڑھتی ہوئی لہر کو طاقتور ہونے سے بچانے کے لیے لبرل ازم کو طاقتور کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا جس کے سرخیل ایوب خان تھے امریکا سے سبق لینے اور پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں ڈبونے اور قرض لانے والے فوجی اور غیر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مالا مال کرنے کا کھیل شروع ہوا۔ اسی پروگرام کا ایک اہم حصّہ ہے جس میں ملک کے اندر پہلے محرومیاں پیدا کی جائیں جس کا نتیجہ انارکی ہو اور پھر اس کو جواز بنا کر کسی کو غدّار اور کسی کو وفادار کی سند سے نواز ا جائے۔ تمام محروموں کے لیے مذاکرات کے تمام دروازے بند کیے جائیں اور پھر آپریشن کا مکروہ کھیل ڈالروں کے عوض کھیلا جاتا ہے۔ اپنے ہی ملک میں سب سے پہلا آپریشن مشرقی پاکستان میں ہوا جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت نکلا۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سے کچھ نہیں حاصل کیا گیا اور نہ ان کرداروں کو کوئی سزا ہی دی گئی بلکہ وہ اکیس توپوں کی سلامی میں گولوں کا خرچ بھی عوام کے متھّے مار گئے۔ اس آپریشن کے بعد بلوچستان میں آپریشن کا خونخوار تجربہ دہرایا گیا اور اب تک دہرایا جارہا ہے جس کا نتیجہ سوائے اناکی کے کچھ بھی ہاتھ میں نہ آیا اس کے بعد تو ہر مسئلے کا حل آپریشن ہی طے کرلیا گیا ہے، آپریشن راہ حق، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات، آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اور اب آپریشن عزم استحکام شروع ہونے جارہا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے عوامی نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہیں سینیٹ موجود ہیں گزشتہ آپریشنز جو ملک میں ہوئے ان کا کوئی جائزہ کوئی رپورٹ نہ اسمبلیوں میں آئی کہ اس آپریشن سے کیا کھویا کیا پایا۔ اور نہ نہیں عوام کے سامنے لایا گیا اس سے زیادہ تعجب کے سمندر میں انسان غوطے کھانے لگتا ہے جب یہ صبح معلوم ہوتا ہے کہ جناب ایک کمیٹی ہے وہ ایک نئے آپریشن کی منظوری دے چکی ہے گویا قوم کی تقدیر کا فیصلہ ایک کمیٹی کرتی ہے باقی اسمبلیاں کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس طرح کے فیصلوں سے اداروں کی عزت پر حرف آتا ہے عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ون مین شو جاری و ساری ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نقصان قوم کا ہوا ہے ہزاروں قیمتی جانوں جس میں افواج پاکستان اور عام شہری شامل ہیں۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام کرنے سے پہلے اسمبلیوں سے منظوری لی جائے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے یہ بھی دہشت گری کی بدترین شکل ہے۔ ملک کے سیکورٹی اداروں کو کیا یہ معلوم نہیں کہ سرحد کے اس پار سے ہمارا ازلی دشمن ہمارے خلاف کارروائی جن افراد کے ذریعے کرتا ہے اس سے حکومت دوستی کی پینگیں بڑھا کر آلو اور پیاز کا کاروبار کرتی ہے۔ سندھ کے اندر کچے کے ڈاکو اپنے علاقوں میں عوام کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں اور ان کے نمائندے پکّے کے ڈاکوں اسمبلیوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ عدلیہ کے رکھوالے کس کے اشارے ابرو کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ کسی گاؤں میں لوگوں نے پانی کی ترسیل کے لیے قریبی ٹیلے پر ایک بہت بڑا پانی کا ٹینک بنایا ہوا تھا جس سے صاف پانی لوگوں کے گھروں میں آیا کرتا تھا کچھ دنوں سے پانی میں بو آنی شروع ہوگئی تھی لوگوں نے گاؤں کے وڈیرے سے پانی میں بو آنے کی شکایت کی وڈیرے نے اپنے آدمیوں کو جاسوسی کے لیے بھیجا تو معلوم ہو ا کہ رات کی تاریکی میں وڈیرے کا بھائی اور اس کے ساتھی نشے میں اس ٹینک میں گندگی کرکے بھاگ جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ وڈیرے نے اس مسئلے کا حل کیا نکالا وڈیرے نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ تمام گاؤں والوں کو کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں نئے نلکے لگوالیں۔ ہے ناں تعجب کی بات۔