کبھی کبھی مولوی فرید (مرحوم) کے فرزند ِ ارجمند کی پیش گوئی سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اْنہوں نے کہا تھا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب مغربی پاکستان کے لوگ بھی ہمارے نقش ِ قدم پر چلیں گے۔ یہ اْن دنوں کی بات ہے سقوطِ ڈھاکہ کو برس گزرے تھے وہ پاکستان تشریف لائے تھے اْن سے استفسار کیا گیا کہ بنگلا دیش میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ضروری ہے ورنہ… بھارتی رہنماء جینا حرام کر دیں گے ان کا جواب انتہائی دل شکن تھا کہنے لگے کہ یہ تمہارے سیاستدانوں کا پروپیگنڈا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بنگلا دیش بنا کر آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوط کر دیا ہے۔ اگر ہم پاکستان سے چمٹے رہتے تو قابل ِ رحم قوم ہی بنے رہتے کیونکہ پاکستان کے سیاستدان ہمارے نام پر دنیا سے بھیک سمیٹتے رہتے۔
اْنہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب تم اپنے سیاستدانوں سے جان چھڑالو گے۔ اگر تم لوگ ایسا نہ کر سکے تو آنے والی نسل یہ کام ضرور کرے گی۔ اْنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہم کسی رْکن ِ اسمبلی کو آنے جانے کے لیے گاڑی نہیں دیتے کیونکہ آمد ورفت کی سہولت دینا حکومت کی ذمے داری نہیں جس کے پاس کار ہے وہ کار میں آئے، بائیک ہے تو بائیک پر آئے، سائیکل ہے تو سائیکل پر آئے اگر سائیکل بھی نہیں ہے تو پیدل آئے کیونکہ یہ اْس کی ذمے داری ہے جب کہ تمہارے ہاں رْکن ِ اسمبلی کے گھر کے ہر فرد کو ایک کار دی جاتی ہے۔
موجودہ بجٹ دیکھ کر محسوس ہونے لگا ہے کہ آنے والی نسل سیاستدانوں سے جان چھڑا لے گی۔ غریب آدمی کے ہاتھ کا نوالہ سیاستدان چھین ہی چکے ہیں اب اْنہوں نے بچوں کے ہاتھ سے فیڈر بھی چھین لیا ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ڈبے کے دودھ کے پیکٹ پر 18 فی صد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے جو بچوں کو دودھ سے محروم کرنے کی شرمناک سازش ہے۔
یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 300 فی صد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کا تقاضا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا رکن اسمبلی ہو جو ارب پتی نہ ہو اگر اْن کی تنخواہ میں اضافہ کے بجائے کمی کر دی جاتی تو اْنہیں کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔
بنگلا دیش کی خوشحالی اور مستحکم معیشت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کسی کو مفت خوری کا لائسنس نہیں دیا جاتا۔ آمد و رفت کے لیے گاڑی نہیں دی جاتی، ڈرائیور اور پٹرول بھی نہیں دیا جاتا، عشرت گاہوں کو روشن رکھنے کے لیے مفت بجلی بھی نہیں دی جاتی وہاں تعلیمی نظام یکساں ہے اور طلبہ کی وردی بھی ایک جیسی ہے۔ طالب علم کسی وزیرِ اعظم کا بچہ ہو یا کسی نائب قاصد کا، اسکول کی وین میں ہی جاتا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان میں ساری آمدنی اور ملکی وسائل پر ارکانِ پارلیمنٹ کا قبضہ ہے اسی لیے معیشت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اب 10یا 20 روپے کی کوئی قدر ہی نہ رہی اس عید پر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بلدیہ کا کوئی بھی ملازم عیدی لینے نہیں آیا عموماً تین ملازمین لازمی آیا کرتے تھے، ایک جھاڑو لگا نے والا، دوسرا کوڑا کرکٹ اْٹھانے والا اور تیسرا نالیاں صاف کرنے والا اور اہلِ محلہ اْنہیں 10 یا20 روپے فی کس دے دیا کرتے تھے مگر موجودہ دور میں 10 روپے تو بچے بھی نہیں لیتے۔