پاکستان معاشی ترقی نہ ہونے اور قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نہیں نکل پاتا

237

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) پاکستان معاشی ترقی نہ ہونے اور قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نہیں نکل پاتا‘ ہماری بہت ساری مالیات مجبوریاں ہیں‘ جنرل ایوب خان اور ذوالفقار بھٹو نے 34 کروڑ ڈالر کا قرضہ لے کر پاکستان کو آئی ایم ایف کا مستقل کلائنٹ بنا دیا ‘ ہمارے وزیرِ خزانہ کا کام بجٹ بنانا نہیں تھا آئی ایم ایف بجٹ کو وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی سے منظور کر انا تھا‘تجارتی خسارے اور روپے کی قدرگرنے سے بیرونی ادائیگیاں مشکل ہوگئیں‘ ۔ ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، ماہرمعاشیا ت مہتاب حیدراور صحافی غلام حیدر شیخ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ “پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے سے کیوں نہیں نکل پاتاـ” ؟ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان کی بہت ساری مالیات مجبوریاں ہیں‘ 2023ء میں سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان بہت سارے دیگر آپشن پر غور کر سکتا ہے لیکن ایک بھی آپشن سامنے نہیں آیا اس کی وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کے بغیر دنیا کی معیشت میں آپ اپنا مقام نہیں بنا سکتے ہیں‘ آئی ایم ایف بھارت اور بنگلادیش کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے لیکن وہاں کی معیشت ترقی کر رہی ہے‘ 2023ء میں آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا تھا کہ مالی سال -25 2024ء کے بجٹ پر بات چیت کا مرکز سماجی اخراجات میں اضافے کی گنجائش پیدا کرتے ہوئے قرضوں کے استحکام کے امکانات کو مضبوط اور متوازن کرنا ہو گا لیکن حکومت ایسا کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے‘ میں اس وقت معاشی ٹیم کا حصہ تھی لیکن وزیر خزانہ اسحق ڈار تھے‘ اب صورتحال یہ ہے وفاق گزشتہ بجٹ کے تقریباً تمام معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ‘ خاص طور پر ملکی ترقیاتی ہدف، جو ابتدائی طور پر 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا، جسے رواں سال کے اوائل میں کم کر کے 2 فیصد کر دیا گیا تھا‘ عالمی مالیاتی ادارے کے پہلے بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ اجلاس ہو ئے ہیں جہاں ہر طرف مالیاتی خسارہ ہے۔مہتاب حیدر نے کہا کہ شکنجے سے نکلنے کی بات تو اب بہت دور ہو چکی ہے‘ پاکستان آئی ایم ایف سے دور ہونا ہی نہیں چاہتا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں مزید پھنس رہا ہے‘ پاکستانی حکومت تو آئی ایم ایف سے مذکرات کرنے کے بھی قابل نہیں ہے‘ موجودہ بجٹ جس کا اعلان گزشتہ ماہ کیا گیا ہے یہ وہ بجٹ ہے جس کو آئی ایم ایف نے فروری2024ء کو حکومت کے حوالے کر دیا تھا‘ ہمارے وزیرِ خزانہ کا کام بجٹ بنانا نہیں آئی ایم ایف کے بجٹ کو وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی سے منظور کر انا تھا اور انہوں نے اس کام کو بڑی کامیابی سے کیا ہے‘ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں1200 سے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا حکم آئی ایم ایف کا تھا‘ آئی ایم ایف اشرافیہ پر ٹیکس لگانا چاہتا تھا لیکن حکومت نے غریبوں پر1800 ارب کا ٹیکس لگایا ہے‘ اس ٹیکس میں بجلی،گیس اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں شامل نہیں ہیں ان سے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ غلام حیدر شیخ نے کہا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نہ نکل سکنے کی وجہ ملک میں معاشی ترقی نہ ہونا ہے‘ بے روزگاری، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے‘ گزشتہ چند سالوں میں اس بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘ سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ملک کو تاریخی قرضوں کے چنگل سے نکال پائے گی‘ اس کے لیے حکومت کو ایک اکنامک مینجمنٹ منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو اتفاق رائے کا متقاضی کرتی ہے جس کا ملک میں فقدان ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس مزید مہنگی ہوگی تو عوام اس پر کب تک صبر کریں گے ‘ قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان معاشی بد حالی کا شکار رہا ہے‘ 11 برس بعد ہی پہلی مرتبہ1965ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے آئی ایم ایف سے تقریباً 4 کروڑ ایس ڈی آر کا معاہدہ کیا اور پاکستان آئی ایم ایف کا مستقل اور باقاعدہ کلائنٹ بن گیا یا کہہ لیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے مالیاتی شکنجے میں مستقل پھنس گیا ہے جہاں سے نکلنا حکومتوں نے ناممکن بنا دیا ہے‘ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آئی ایم ایف کا دروازہ 3 مرتبہ 1973ء 1974ء اور 1977ء میں کھٹکھٹانا پڑا‘ ان3 معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان کو کل 31 کروڑ ڈالر کا قرض ملا تھا‘ جون 2018 ء میں عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری لی‘ آئی ایم ایف نے معاہدے اور شرائط کی رو سے ایک ارب ڈالر ادا کیے تو عمران خان نے مجوزہ آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کیا جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ نے مزید فنڈ روک دیے اور اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا‘ پی ٹی آئی حکومت کے 39 مہینوں میں غیر ملکی قرضوںمیں 32 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا‘ پاکستان کو سر دست بڑھتے ہوئے جاری تجارتی کھاتوں میں خسارے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت دباؤ ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی ہے جو کہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔