مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن کی تشریح غیر آئینی تھی ، سپریم کورٹ

162

اسلام آباد: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی۔ آئینی ادارے کی غیر آئینی تشریح کو عدالت توثیق کر سکتی ہے کیسے کر سکتی ہے ۔؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس 2002 اور 2018 کے ریکارڈ موجود ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مخصوص نشستوں کا کوٹہ سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں پر مبنی ہوتا ہے اور غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستیں 10 ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 2018 کے انتخابات میں 272 نشستیں تھیں، جن میں سے 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے اور 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کر دیا اور اس کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے خارج کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی بنیاد جمہوریت پر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد اراکین کی تعداد اس مرتبہ بہت زیادہ ہے اور آئین کے مطابق مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام جمہوریت کی بنیاد پولیٹیکل پارٹیز ہیں اور آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد الیکشن کمیشن کی غلطی کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب ہے کہ عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا کسی فریق نے یہ کہا ہے کہ نشستیں خالی رہیں گی؟ انہوں نے کہا کہ جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے اس پر ہی وقت صرف کیا جانا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اس وقت سنی اتحاد پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں؟

فیصل صدیقی نے زرتاج گل کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے 25 اپریل کو آزاد امیدواروں کی شمولیت اور پارٹی پوزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ارکان کو سنی اتحاد کا تسلیم کر رہا ہے، کیا یہ تضاد نہیں کہ الیکشن کمیشن ایک جانب سنی اتحاد کو سیاسی جماعت نہیں مان رہا تھا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی۔ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کریں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کی سماعت میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر مختلف قانونی نکات اور آئینی تشریحات پر تفصیلی بحث ہوئی۔