نجات دہندہ کے منتظر عوام

389

آزادی بڑی نعمت ہے چاہے وہ شخصی ہو سیاسی ہو یا مذہبی۔ اسلام بھی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزادی دلانے کا دین ہے۔ آزادی کی اہمیت اور قدر کا اندازہ کرنا ہو تو محکوم مسلمانوں کو دیکھیں جو غیر مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں کتنے ظلم اور زیادتی کا شکار ہیں، دور کیوں جائیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو دیکھیں، بھارت اب تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور ہزاروں نوجوانوں کو قید میں درندگی کا نشانہ بنا کر ان کو ذہنی اور جسمانی طور سے مفلوج کر چکا ہے۔ ہزاروں گھروں کو نیست و نابود اور نہ جانے کتنی عصمتوں کو پامال کیا، ہزاروں اب بھی قید و بند اور بہیمانہ تشدد کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، موت اور زندگی کی ابتلا میں گرفتار ہیں، ان کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ ہندوؤں سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہی ان کا نعرہ بھی ہے۔ اس طرح ان ممالک کو دیکھیں جہاں حکومتیں بھی مسلمان اور حکمران بھی مسلمان ہیں لیکن وہاں نہ شخصی آزادی ہے اور نہ ہی سیاسی آزادی۔ جہاں انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزادی کے لیے اجتماعی کوششیں اور کاوشیں کی جا رہی ہیں وہاں مسلمان ہی مسلمانوں کے ہاتھوں ابتلا کا شکار ہیں، اب تک نہ جانے کتنی انسانی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے اور نہ جانے کتنے قید و بند میں ذہنی وجسمانی مظالم کا شکار اور بے بس ہیں۔

بحیثیت قوم جتنی اور جس آزادی کی نعمت ہم کو مہیا ہے اس پر ہم اپنے ربّ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، اس کے ساتھ یہ سوال قابل غور ہے کہ بحیثیت قوم، قیام پاکستان کے مقاصد، اپنا عہد غلامی جو ہم نے بحیثیت محکوم، ہندوستان میں گزارا اور جدوجہد آزادی کی لازوال قربانیاں، کیا ہم واقعی یہ سب فراموش کر چکے ہیں؟، بدقسمتی سے اس حوالے سے نئی نسل کی ذہن سازی بھی ہم کر نہیں سکے ہیں، اس سب کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جس صورتحال سے مجموعی طور سے ہم اور ہمارا وطن اس وقت دو چار ہے۔ انتہا پسندی، سیاسی رہنماؤں کی آپس کی ناچاقی، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویے، سیاسی مخالفتوں کا ذاتی دشمنی میں تبدیل ہونا، ایک فریق کا دوسرے فریق کو سوشل میڈیا پر مغلظات سے نوازنا، فحش کارٹون اور دشنام طرازی میں مقابلہ کہیں کم اور کہیں زیادہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس دشنام طرازی میں اور ایک دوسرے کی تضحیک اور تذلیل میں اپنی انا کی خاطر آپس میں ہی دست و گریباں ہماری سیاست ایسے گم ہوئی کہ ہم بھول گئے یا ہمیں بھلا دیا گیا کہ ہمارا اصل دشمن بھارت ہے جس نے پاکستان کو اس کے قیام کے روز اوّل سے دلی طور سے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ جس دن پاکستان وجود میں آیا اسی دن ہندوستان میں پاکستان توڑو کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان اپنی اندرونی سیاسی چپقلشوں کا شکار رہا اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیام پاکستان کے صرف 23 سال بعد پاکستان توڑو کمیٹی کی کوششوں کا نتیجہ ہمارے سامنے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں آیا۔ اس وقت بھی سیاسی چپقلشیں اپنے عروج پر ہیں اور ملک اندرونی طور سے سیاسی محاذ آراء اور بیرونی طور سے دہشت گردی کا شکار ہے، صورتحال بظاہر اچھی نظر نہیں آرہی ہے جس میں تشویش ناک پہلو اگر بیرونی دہشت گردوں کی یلغار ہے تو اندرونی طور سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مجموعی طور سے ایک فضا کا بنانا ہے، اس حوالے سے سر دست بظاہر صورتحال کی تبدیلی کے لیے مختلف آپشنز پر غور بھی ہو رہا ہے اور کچھ اقدامات کی خبریں بھی لیکن نتائج کے اعتبار سے چیزیں منشا کے مطابق نہیں ہیں، سوشل میڈیا جو نہ کسی قابو میں ہے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے دوسری ہی کہانیاں سنا رہا ہے جو کہ تشویشناک بات ہے۔ اس گمبھیر صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے اور قابل قبول حل کی طرف بڑھنے میں بحیثیت قوم ہم نے تاخیر کی تو تاریخ نے نہ ہمیں ماضی میں معاف کیا تھا اور نہ اب کرے گی۔ اگر اپنے اصل دشمن ہندوستان کو فراموش کر کے عاقبت نااندیش انداز اختیار کرنے والوں کے اکسانے پر اگر اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام الناس کو مد مقابل لا کر کھڑا کر دیا جائے اس سب کے نتیجے میں اداروں اور عوام کے درمیان مزید دوریاں گھر کر جائیں اور نتیجے میں سیاسی نظام اور جمہوری اقدار مزید متاثر ہوں تو ہم لاشعور میں آپ اپنی کمزوری کا سامان کر رہے ہوں گے۔ اس تمام صورتحال میں ہمارا دشمن اپنی خوشی کا اعلان کرنے سے تو رہا، یہ علٰیحدہ بات ہے کہ ہمارے آپس کے ان رویوں کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ سنگین صورتحال کو معمول پر لانے، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رنجشوں کو ختم کرانے کے حوالے سے سرکردہ مذہبی شخصیت، متحارب سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان صلح کرانے کی ناکام کوششوں کی خبر بھی گردش میں ہے۔ سیاسی بصیرت سے ماورا کوششیں چاہے وہ کتنی ہی مخلصانہ کیوں نہ ہوں موجودہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے نہ ہی کافی ہیں اور نہ ہی موثر۔ ضرورت ہے کہ ملک عزیز کی معتدل سوچ رکھنے والی معتبر اور امین سیاسی قوت جو بطور ثالث صلاحیتیں رکھتی ہو، متحارب اور مدمقابل سیاسی جماعتوں کو بطور ثالث قبول ہو اور جس کے زیر انتظام اعتماد سے انہیں بیٹھنا اور آپس میں بات چیت کرنا قبول ہو اسے آگے لاکر ذمہ داری دی جائے، جو سیاسی عمل جاری و ساری رکھنے کے لیے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے، سیاست کو پٹری پر لانے اور جمہوری روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے بات چیت کے ذریعے کم سے کم مشترکہ نکات پر باہمی رضامندی سے تمام فریقین کو کسی قابل عمل فارمولے اور حل تک پہنچا سکے۔

اس سب کے لیے ضروری ہے کہ سیاست، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ، اپنی اپنی آئینی حدود کی پابندی کریں، پاکستان آگے بڑھے گا تو ہی ہماری سیاست آگے بڑھے گی۔ اپنی اپنی مفاد پرستانہ انفرادی سیاست بڑھانے کا انجام ماضی میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدترین صورتحال کے تناظر میں غریب عوام کس کے پاس جا کر فریاد کریں؟۔ مختلف رپورٹس کے مطابق ملک میں غربت اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح اسکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد کا معاملہ ہے، اقتصادی جائزہ ہر پاکستانی شہری کو دو لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض بتا رہا ہے۔ ناقابل برداشت موسمی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام عوام کے پاس بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے وسائل مہیا نہیں، تعلیم اور مجموعی قومی صحت اور کاروبار، سب کچھ تو بد حالی کا شکار ہے۔ ایک لاوا ہے جو ذہنوں میں پک رہا ہے، اسی کے رد عمل میں خدانخواستہ کسی اشتعال انگیز صورتحال کے نتیجے میں شر پسند کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ اور حکمران مل کر بیٹھیں اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کا حل نکالیں۔ اصل مسئلہ غریب عوام کا ہے جو حالات سے مایوس بھی ہیں دل برداشتہ بھی اور کسی حقیقی نجات دہندہ کے منتظر بھی۔