بَیْتُ اللّٰہ (حصہ دوم)

338

تُبّع حِمیری نے حمد وصلوٰۃ کے بعد لکھا: ’’میں آپ اور آپ پر اتاری گئی کتاب پر ایمان لایا، میں آپ کے دین اور سنّت پر ہوں، میں آپ کے اور سب کے ربّ پر ایمان لایا۔ آپ اپنے ربّ کی طرف سے جو احکام لے کر آئیں گے، میں اُن سب پر ایمان لایا۔ اگر میں نے آپ کا زمانہ پایا تو بہت اچھا ہوگا اور اگر میں نے آپ کا زمانہ نہ پایا تو آپ میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے دن مجھے بھول نہ جانا، کیونکہ میں آپ کی امت کے اوّلین میں سے ہوں۔ آپ کی آمد سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کی، میں آپ اور آپ کے والد ابراہیمؑ کی ملّت پر ہوں، پھر اس نے خط کے آخر میں اس نقش کی مہر لگائی: ’اوّل وآخر بادشاہت اللہ کے لیے ہے‘ اور خط کا عنوان یہ لکھا: ’اللہ کے نبی، اس کے رسول، خاتم النبِیّٖن رسولِ ربّ العالمین محمد بن عبداللہ کے نام تُبَّعِ اول کی جانب سے‘۔ (تفسیر قرطبی)

امام ابن عساکر لکھتے ہیں:’پھرتُبَّع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہوگیا۔ تُبَّع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمدؐ کی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے وقت جن اہل مدینہ نے نبیؐ کی نصرت کی تھی، وہ سب ان علماء کی اولاد میں سے تھے جو مدینہ منورہ میں تُبَّع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے۔ جب رسول اللہؐ مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہوگئے اور ہر ایک آپؐ کو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا، آپؐ نے فرمایا: ’’اس اونٹنی کو چھوڑ دو، یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے‘‘ حتیٰ کہ وہ اونٹنی سیدنا ابوایوب انصاری کے گھر کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور نبیؐ نے ان کے گھرپر قیام فرمایا۔ سیدنا ابو ایوب انصاری کا نام خالد بن زید تھا، آپ اُس عالِم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تُبَّع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ منہدم کرنے کے ارادہ سے باز رکھا تھا، رسول اللہؐ سیدنا ایوب کے جس گھر میں ٹھیرے تھے، یہ تُبَّع ہی کا بنایا ہوا تھا‘‘۔ (تاریخ دمشق الکبیر)

یہ وہی تُبَّع ہے جس نے سب سے پہلے بیت اللہ کو غلاف چڑھایا اور اہل مکہ کو کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا، ایک روایت میں ہے: ’’سیدنا اسماعیل ؑ نے سب سے پہلے کعبہ کو غلاف چڑھایا، ایک روایت کی رُو سے سب سے پہلے آپؐ کے جدِّ اعلیٰ عدنان بن اُدّ نے چڑھایا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ بزرگانِ دین کے مزارات پر جو چادر چڑھائی جاتی ہے، اُس کی اصل کعبۃ اللہ کا غلاف ہے، لیکن ایک سے زیادہ چادریں چڑھانا اسراف ہے۔ مزیدیہ کہ محکمۂ اوقاف کے افسران یہ چادریں حکمرانوں اور بااثر لوگوں کو تحفے کے طور پر دیتے ہیں، جبکہ فقہائے کرام نے لکھا ہے: ’’یہ چادریں اور مزارات پر دی جانے والی چیزیں وہاں کے فقراء پر صرف کی جائیں‘‘۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ’’کعب کے لفظی معنی ہیں: ’’ابھری ہوئی چیز‘‘، چونکہ بیت اللہ بھی مکۂ مکرمہ میں پہاڑوں کے درمیان ہموار جگہ پر اٹھتی ہوئی عمارت تھی، اس لیے اسے ’’کعبۃ اللہ‘‘ کہا گیا اور یہ نام قرآنِ کریم میں بھی مذکور ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے حرمت والے گھر کعبہ کو لوگوں کے لیے قیام (امن اور بقا) کا ذریعہ بنایا ہے‘‘، (المائدہ: 97) یعنی اس کعبۃ اللہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ یہاں کے رہنے والوں کو فراخی عطا فرمائے گا، یہ اقوامِ عالَم کے درمیان ان کی عزت وسرفرازی کا باعث بنے گا، سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا بھی قرآنِ کریم میں مذکور ہے: ’’اور یاد کرو جب ہم نے (مکہ ٔ مکرمہ میں) اس گھر کو لوگوں کا مرجع اور جائے امن بنایا اور حکم دیا کہ مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنائو اور ہم نے ابراہیم واسمٰعیل ؑ کو تاکیداً حکم دیا کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو اور یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے پروردگار! اس (شہرِمکہ) کو امن کا شہر بنا اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، ہر طرح کے پھلوں سے روزی عطا فرما، اللہ نے فرمایا: (یقینا میں سب کو رزق دوں گا، البتہ) اور جو کفر کرے تو میں اُس کو بھی قلیل (مدت کے لیے) فائدہ دوں گا، پھر میں اسے آگ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘۔ (البقرہ: 125-126)

یہاں قرآنِ کریم نے یہ بتایا: دنیاوی نعمتیں تو امتحان یا اتمامِ حجت کے طور پر سب کو عطا کی جاتی ہیں، لیکن دینی پیشوائی اور امامت صرف انہیں عطا کی جائے گی جو اس کے حق دار ہیں۔ قرآنِ کریم کی سورۂ الفیل میں ’اصحابِ فیل‘ کا بھی ذکر ہے، یمن کے بادشاہ ابرہہ نے بیت اللہ کے مقابل یمن میں ایک عبادت گاہ (کلیسا) بنائی تاکہ وہ لوگوں کی توجہات کا مرکز بنے، لوگ عبادت کے لیے ادھر کا رخ کریں اور بیت اللہ کی مرکزیت ختم ہوجائے، لیکن جب اس کی یہ مراد پوری نہ ہوئی تو اس نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر بیت اللہ پر چڑھائی کردی تاکہ وہ اسے العیاذ باللہ مسمار کردے، لیکن وہ اپنی سازش میں ناکام رہا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے نبی مکرّمؐ!) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا، کیا اُس نے ان کے (پورے) منصوبے کو غارت نہیں کردیا اور اس نے ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کی پتھریاں مار رہے تھے، پس اُس نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا‘‘۔ (الفیل:1-5)

الغرض انسانوں میں وحدت قائم کرنے کے لیے کئی حوالے ہوتے ہیں، مثلاً: نسب ونسل، رنگ و وطن وغیرہ۔ لیکن اصل اتحاد نظریاتی ہوتا ہے جو نسب ونسل اور رنگ ووطن کے امتیازات سے بالاتر ہوتا ہے اور سب کو ایک رنگ میں رنگ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(حقیقی اور پائدار) رنگ اللہ کا ہے اور اللہ سے زیادہ حسین رنگ اور کس کا ہوسکتا ہے‘‘۔ (البقرہ: 138) اللہ کے رنگ سے مراد کوئی ایسا رنگ نہیں ہے جو حسّی طور پر نظر آئے، بلکہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے، وہ فطرتِ سلیم ہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے یا اس سے مراد سنّت ِ الٰہیہ ہے اور یہ رنگ انسان کے دل ودماغ، احساسات، رگ وپے اور روئیں روئیں میں ثبت ہوتا ہے، اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ اس کے برعکس مسیحی بچے کو کلیسا میں لے جاتے ہیں، پوپ اس پر رنگین پانی چھڑکتا ہے اور یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اُس کا سارا پاپ دھل گیا ہے اور وہ پاک وصاف ہوگیا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچہ پاک نفس، پاک روح اور پاک فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے اور پھر اُس کا ماحول اُسے بناتا ہے یا بگاڑتا ہے، جبکہ مسیحی تصور یہ ہے کہ بچہ پاپی پیدا ہوتا ہے اور کلیسا میں بپتسمہ ہونے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے۔

ایمانیات کا تعلق تو دل ودماغ سے ہے، اس دنیا میں وحدت کے لیے کچھ مظاہر بھی درکار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بیت اللہ کو مسلمانوں کے لیے وحدت اور مرکزیت کی علامت بنادیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کو ’اہلِ قبلہ‘ کہا جاتا ہے، قبلہ سے مرادجہتِ عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وقت جس طرف رُخ کیا جائے، وہ قبلہ ہے، چنانچہ رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کی ظاہری علامات میں قبلے کو بھی بیان فرمایا: ’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور (نماز کے وقت) ہمارے قبلے کی جانب رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مسلمان ہے کہ جس کے لیے اللہ اور اُس کے رسول کا ذمہ (عہد، امان اور ضمان) ہے، سو اللہ کے عہد کو نہ توڑو‘‘۔ (بخاری) یعنی ان ظاہری علامات کے ہوتے ہوئے اُسے اس وقت تک مسلمان تسلیم کیا جائے گا، جب تک کہ اس کے برعکس شواہد اور حقائق سامنے نہ آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کامل مسلمان ہونے کے لیے صرف عبادت کے وقت قبلہ رُخ ہونا کافی ہے، بلکہ ایمان اور اسلام ایک جامعیت اور کُلّیت کا نام ہے، اس لیے اسے اجزا میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کے انکار سے بھی ایک شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ الغرض مسلمان ہونے کے لیے کل دین کو ماننا ضروری ہے، جبکہ اسلام سے خارج ہونے کے لیے کسی ایک بنیادی عقیدے کا انکار بھی کافی ہے۔