حکمران، سلطان مراد رابع کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں

371

وفاقی کابینہ نے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دے دی اقتدار کی دودھ شریک پیپلز پارٹی نے بھی اس کی حمایت کردی۔ اس منظوری سے قبل نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے اس کا اعلان کیا جس میں وزیراعظم، آرمی چیف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شراکت شامل تھی، اس آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ کی تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام (ف) نے کھل کر مخالفت کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ عزم استحکام آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ ان کے ہم آواز جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن بھی ہیں اُن کی تجویز ہے کہ ناخن ِ تدبیر سے معاملہ کو سلجھایا جائے، فوجی آپریشن نہیں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ 2001ء سے امریکا کو پاکستان میں اڈوں کی فراہمی پر شروع ہونے والی اس دہشت گردی کی جنگ میں ملکی معیشت کا 200 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ 70 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں فوجی بھی شامل ہیں۔ اس اہم ترین فیصلے میں نہ صرف پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا گیا بلکہ قومی سیاسی جمہوری قیادت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ماضی کی تاریخ واضح ہے کہ اس طرح کے فوجی آپریشن ناکام ثابت ہوئے جس کے باعث خود اداروں کی نیک نامی پر حرف آیا۔ دہشت گردی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ انٹیلی جنس، پولیس اور عدالتی نظام کو فعال اور موثر بنایا جائے۔

یاد رہے ردالفساد، ضرب عضب آپریشن اس کی واضح لیل ہیں کہ انہوں نے پھول اُگائے کم اور کانٹے بوئے زیادہ۔ اب فوجی معتوب ہے اور آئے روز اُن کے قافلے ہٹ ہو کر موت کا جوان سفر طرے کررہے ہیں۔ لال مسجد آپریشن نے جو پرویز مشرف نے قوت دکھانے کے لیے کیا اور بلوچ سردار اکبر بگٹی کو وہاں سے ہدف کیا جو نامعلوم ٹھیرایا گیا اور موت کا پیالہ پلایا گیا۔ ان دو بڑے غلط عوامل نے دہشت گردی کو انتقامی آگ میں تبدیل کردیا۔ اس کا بھارت خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اُس نے پاکستان کو اندرون خانہ جنگی میں اُلجھا کر اپنی سرحدوں اور ملک کے اندر ہونے والی مسلح کارروائیوں سے خاصی نجات حاصل کرلی۔ اب اقتدار کی بھاں متی کا کنبہ ڈور کو سلجھا رہا ہے، پر سرا ملتا نہیں، کہ مصداق ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے تو تاریخ بتارہی ہے کہ مسئلے کا حل یہ نہیں کہ اُس کو سلجھانے کے لیے کسی مسئلے کو کھڑا کیا جائے بلکہ تدبر اخلاص نیک نیت چاہیے۔ پھل نیت کو، برکت اخلاص کو حاصل ہوتی ہے۔ سرجری تو جب ہوتی ہے جب دوا کام نہ کرے ابھی حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ دہشت گرد زور پکڑ گئے ہیں جڑ پر تدبر کی ضرب کی ضرورت ہے۔

ملک پاکستان کی صورت 1623ء کو دولت عثمانیہ سے ملتی جلتی ہے اُس وقت سلطنت کی حالت مورخوں کے مطابق یہ تھی کہ گوشہ گوشہ سوئِ نظم اور بدامنی کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ شاہی خزانہ فقیر کی جھولی بن رہا تھا، اسلحہ خانے میں نام نہاد آلات جنگ باقی رہ گئے تھے۔ رعایا بھوکوں مر رہی تھی ان حالات میں سلطان مراد رابع صرف 12 سال کی عمر میں تخت حکومت پر متمکن ہوا ترک مورخ اولیا رقم طراز ہے کہ تخت نشینی کے بعد جب سلطان مراد خزانہ میں داخل ہوا تو میرا باپ درویش محمد بھی اُن کے ساتھ تھا۔ خزانہ میں طلائی اور نقدی ظروف میں سے کچھ بھی باقی نہ تھے صرف 30 ہزار چھوٹے نقرئی سکہ اور الماریوں میں چند مونگے اور چینی کے برتن رہ گئے تھے۔ بادشاہ نے سجدہ کیا اور پھر کہا کہ ان شاء اللہ میں خزانے کو اُن ہی لوگوں کی جائداد سے پُر کردوں گا جنہوں نے اُسے لوٹا ہے۔ پھر جب اُس نے 9 فروری 1640ء میں سفر آخرت اختیار کیا تو تاریک اسلام کے مورخ رقم کرتے ہیں کہ بلاشبہ سخت گیری اور تشدد اُس کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی لیکن اس کا ساحرانہ کرشمہ تھا کہ فوج کی بغاوت کا خاتمہ ہوگیا۔ صوبے داروں کی سرکشی کا تختہ الٹ گیا سلطنت کا گوشہ گوشہ فتنہ و فساد، تباہی، بربادی کی آلائشوں سے پاک ہوگیا، ملک کا ہر متنفس امن پرور اور سکون بخش فضا میں سانس لینے لگا۔ عدالتوں میں عدل و انصاف کے جنت نگاہ مناظر دکھائی دینے لگے۔ غرض کہ رعایا کے تمام طبقوں میں اطمینان اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی۔ حکومت کے ہر شعبے میں حسن انتظام اور تعمیر و ترقی کے پھول برسنے لگے۔ کیا پاکستان کے موجودہ حکمران ذرا، سلطان مراد رابع کی تاریخ اور تدبر کا مطالعہ کرلیں کہ جو جرم کرے گا سزاوار ہوگا۔ چاہے کوئی بھی ہوا۔