کچھ بھی تو نہیں بدلا

220

جب سے بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں قائم سیاسی اتحاد این ڈی اے پھر منتخب ہوا ہے تب سے اب تک کوئی بھی بڑی اور بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار کے میدان میں تیسری اننگز شروع کیے ہوئے 20 دن ہوئے ہیں مگر اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اُس کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اور اتحادیوں کی مسلسل تیسری حکومت نے 9 جون کو حلف اٹھایا تھا۔ اس بار نریندر مودی کو کابینہ میں اتحادیوں کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرنا پڑی ہے۔ اسپیکر کا انتخاب بھی بی جے پی اور اتحادیوں کے لیے آسان مرحلہ نہ تھا۔ مودی نے سربراہِ حکومت کی حیثیت سے 22 سال گزارے ہیں مگر ایسی پریشانی کا سامنا انہیں پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا۔

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کا پوتلا کھل گیا۔ لاکھوں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ جلپائی گُڑی میں ٹرین کا بھیانک حادثہ رونما ہوا۔ (مقبوضہ) جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں جاری رہیں۔ ان بیس بائیس دنوں میں ٹماٹر، پیاز اور آلو کے دام پھر بڑھ گئے۔ مزید چند گھریلو اشیا کے دام بڑھنے سے خواتین ِ خانہ کے لیے گھر چلانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ بھارتی اسٹاک مارکیٹ نے غیر معمولی بلندی دیکھی مگر اس دوران ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر تاریخی گراوٹ کا شکار ہوئی۔ ہائی ویز پر ٹول ٹیکس میں 15 فی صد اضافہ کردیا گیا۔

بی جے پی کی پیرنٹ آرگنائزیشن آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بی جے پی کی قیادت کو متکبر قرار دیا مگر بی جے پی کے رہنماؤں نے خاموش رہنا پسند کیا تاہم معاملات زیادہ نہ بگڑیں۔ اس دوران کئی ریاستوں میں بی جے پی کی صفوں میں بغاوت ابھری۔ پارلیمنٹ سے صدرِ مملکت کا خطاب بھی زیادہ جاندار اور متاثر کن نہ تھا۔ انہوں نے کوئی بھی ٹھوس بات کی نہ اعلان۔ ایوان کی معمول کی کارروائیوں میں بھی تنازعات ابھرے۔

اصول یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ مرتبہ منتخب ہونے والے رکن کو حلف برداری کی تقریب کی سربراہی کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ کیرالا سے کانگریس کے کے سُریش آٹھ بار منتخب ہوئے مگر اُن کے بجائے بی جے پی نے اڑیسہ سے 7 بار منتخب ہونے والے بی مہتاب کو حلف برداری کی تقریب کی سربراہی سونپی۔ بی مہتاب صرف ایک بار بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں جبکہ کے سُریش نے کبھی وفاداری نہیں بدلی اور آٹھ بار کانگریس ہی کے ٹکٹ پر جیتے ہیں۔

کیا بی جے پی ان تنازعات کو ٹال نہیں سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے یہ تنازعات جان بوجھ کر پیدا کیے کیونکہ وہ یہ بتانا چاہتی تھی کہ کچھ بھی نہیں بدلا اور وہ اپنے سربراہ (نریندر مودی) کے پسندیدہ انداز کے ساتھ ہی کام کرتی رہے گی۔ نریندر مودی کسی بھی معاملے میں ہٹ دھرمی ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف بھی جاکر اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے معاملے میں قوم کو شدید الجھن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لاکھوں افراد کرنسی نوٹوں کی تبدیلی سے بُری طرح متاثر ہوئے تھے۔ بی مہتاب کو صرف اس لیے نوازا گیا کہ انہوں نے وفاداری بدل کر بی جے پی کی صفوں میں شامل ہونا پسند کیا تھا۔ یوں بی جے ڈی کے دیگر ارکان کو اشارہ دیا گیا ہے کہ اگر وہ بھی وفاداری بدل لیں تو انہیں بھی آؤٹ آف دی وے جاکر نوازا جائے گا۔

اسپیکر نے منتخب ہوتے ہی جس انداز سے کانگریس کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم آں جہانی مسز اندرا گاندھی کو 49 سال قبل ہنگامی حالت کے نفاذ پر تنقید کا نشانہ بنایا اُس سے ایوان کا ماحول مزید تلخ ہوگیا۔ اگر معاملات کی تفہیم کا یہی حال ہے تو کل کو 1947 میں جموں و کشمیر پر حملے کے لیے پاکستان کے خلاف، 1962 میں جنگ چھیڑنے پر چین کے خلاف اور 1971 میں بھارتی مسلح افواج کو خوفزدہ کرنے کے لیے بحری بیڑا بھیجنے کے اعلان پر امریکا کے خلاف بھی مذمتی قراردادیں آنی چاہئیں!

پارلیمنٹ سے صدرِ مملکت کا خطاب معاملات کو درست کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ اس خطاب کے ذریعے لوک سبھا کی تبدیل شدہ حالت کو قبول کرنے کا عندیہ دیا جاسکتا تھا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ صدر کے خطاب سے کسی کو بھی اندازہ نہ ہوسکا کہ بی جے پی کی واضح اکثریت کو دھچکا لگ چکا ہے اور اُسے حکومت بنانے اور قائم رکھنے کے لیے اب اتحادیوں پر بہت زیادہ منحصر رہنا ہے۔ صدر کے خطاب میں لوک سبھا میں سیاسی جماعتوں کی بدلی ہوئی پوزیشن کے حوالے سے کچھ بھی نہ تھا۔ یہ بات کم اہم نہیں کہ لوک سبھا میں دس سال بعد ایک اپوزیشن لیڈر ہوگا۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نئی حکومت بی جے پی نہیں بلکہ اتحاد کی ہے اور اس میں بی جے پی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اگر وہ من مانی کرے گی تو خرابیاں پیدا ہوں گی۔ صدر کے خطاب میں اس بات کا کوئی ذکر شامل نہ تھا کہ بھارت میں مخلوط حکومت ہے۔ اتفاقِ رائے، افراطِ زر اور پارلیمانی کمیٹی جیسے الفاظ بھی صدارتی خطاب میں شامل نہ تھے۔ اِس اسے اندازہ ہوگا کہ کچھ بھی نہیں بدلا اور ملک کے لیے سوچنے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

(روزنامہ انڈین ایکسپریس کے لیے یہ مضمون بھارت کے سابق وزیرِ خزانہ پی چدمبرم نے تحریر کیا ہے۔)