اگلے 10 سال تک بہتری کا کوئی امکان نہیں، شاہد خاقان

98

اسلام آباد:سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئندہ5 سے 10 برس تک بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینئر سیاستدان اور سابق لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ کابدترین بجٹ منظور کیا ہے، سب سے پہلے تو حکومت کو خود اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے پانچ دس برس تک کوئی بہتری کا امکان نظر نہیں آ رہا۔

انہوں نے کہا کہ پتا نہیں ہم کس طرح کا حکومتی نظام چلا رہے ہیں؟ ہم عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے لیکن ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخراجات کم نہیں کررہے۔ سیکڑوں ارب کے سگریٹس کی چوری کھلم کھلا ہورہی ہے۔ کیا ایف بی آر نہیں جانتا ملک میں کتنے سگریٹ استعمال ہورہے ہیں اور کتنے پر وہ ٹیکس اکٹھا کررہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ سگریٹ بنانے والوں سے بھی ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتے؟

سابق وزیراعظم نے کہا کہ  2018ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے جب فاٹا کا انضمام ہوا تھا تو وہاں انڈسٹریز کو 5 سال ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی جو پہلے سے وہاں موجود تھیں تاکہ وہ اپنا بندوبست کرلیں، یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور بغیر ڈیوٹی کے فاٹا میں مال بناتی ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ وہاں موجود انڈسٹریز فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں فاٹا میں فیکٹریاں فاٹا کے عوام کو فائدہ نہیں دیتیں، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اس پر ٹیکس لگایا جائے کیوں کہ یہ فیکٹریاں فاٹا کے عوام نہیں لگاتے۔وہاں طاقت ور لوگ موجود ہیں، باہر سے لوگوں نے وہاں انڈسٹریز لگائی ہوئی ہیں اور آج انہوں نے حکومت کو بلیک میل کرکے ایک بار پھر ٹیکس استثنا حاصل کرلیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ یہ بدترین بجٹ ہے، ملک کی معیشت رہے گی یا بجٹ رہے گا، حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 25 فیصد ہیں، تیس ہزار ارب میں سے 500 ارب روپے عوام کے لیے ہیں، سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا ہے۔ دودھ، خیراتی اسپتال اور ادویات پر بھی ٹیکس لگا دیا مگر ڈیزل کی اسمگلنگ کو کوئی نہیں چھیڑے گا، مہنگائی میں پسے ہوئے لوگوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا، آدھی آمدنی حکومت لے جائے گی یہ ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت سارا بوجھ اٹھاتی ہے۔