اس وقت ملک میں ای او بی آئی پنشنرزکی فلاح وبہبود کے لیے متعدد تنظیمیں کام کر رہی ہیں سب کا مقصد پنشنرز کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ ان تمام تنظیموں میں ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن المعروف اپپوا (EPWA) کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے یہ ایک رجسٹرڈ تنظیم ہے اور منظم طریقے سے برسر پیکار ہے، اسی لیے ہم اس کو ای او بی آئی پنشنر کی سی بی اے (CBA) کہتے ہیں اور جہاں بھی کوئی سقم محسوس کرتے ہیں کور کمیٹی کے ارکان کو مطلع کرتے ہیں۔ ای او بی آئی کے 4 لاکھ 24 ہزار 412 پنشنر میں سے اکثریت اس بات سے لاعلم ہوگی کہ اب رقم نکالنے پر ATM سلپ اور میسج پر بیلنس نہیں آرہاہے اب بیلنس معلوم کرنے کے 3روپے 13پیسے کٹتے ہیں۔ بات تین روپے 13پیسے کی نہیں ہمارے اکثر و بیشتر پنشنرز رقم یکمشت نہیں نکالتے اب ان کے اکاؤنٹ میں کتنی رقم بچی معلوم نہیں کیونکہ ہر ماہ صرف یہ میسج آتا ہے کہ اس ماہ کی پنشن آپ کے کارڈ میں جمع ہو چکی ہے اب یہ رقم کتنی جمع ہوئی بینک 10 / 20 روپے اِدھر اُدھر کر لے تو کیسے پتہ چلے گا اگر درست معلومات چاہیے تو اس کے لیے 3روپے 13پیسے قربان کرناپڑیں گے۔ ا
ب سوچیے 4لاکھ 24 ہزار 412 پنشنر میں سے 2لاکھ پنشنر نے بھی بیلنس چیک کیا تو بینک کو کتنی رقم ملے گی جبکہ مسلم کمرشل بینک ای او بی آئی کی ہر ٹرانزیکشن پر تین روپے 13 پیسے سلپ چارجز کے نام پر لے رہا ہے۔ اگرچہ اس کی سلپ میں بیلنس بھی آتاہے اب یہ سب کچھ کس کی ہدایت پر ہو رہا ہے کچھ نہیں معلوم یہ رقم کہاں جاتی ہے یہ بھی نہیں معلوم۔ ہم نے اس سلسلے میں اپیوا کے ساتھیوں کو مطلع کیا مگر کوئی واضح جواب موصول نہیں ہوا بلکہ ایک ذمہ دار نے ازراہ مذاق ہی صحیح یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے چلیے قصہ تمام ہوا۔ اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف یعنی پنشن میں اضافہ۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں ای او بی آئی پنشن میں اضافے کو یکسر نظر انداز کرنے سے پنشنرز میں مایوسی کی فضا تاحال برقرار ہے۔ اس سلسلے میں اپیوا کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ چیئرمین جلد ہی اسلام آباد جانا چاہتے ہیں
جہاں وہ سیکرٹری وزارت سمندرپارپاکستانی (یعنی دور کے ڈھول سہانے) اور چیئرمین ای او بی آئی سے ملاقات کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی کراچی میں ای او بی آئی کے مرکز پر ملاقات کا شیڈول بھی مرتب کیا جارہاہے جبکہ کور کمیٹی کے ارکان کی جانب سے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پنشنرز کے حقوق کو دبایا نہیں جاسکتا اور اپیوا ان کے لیے عملی اقدامات کرنے سے کبھی غافل نہیں ہوگی۔ ہم نے اس کے جواب میں صرف ایک جملہ تحریرکیا تھا ’’جدوجہد جاری رکھیں مگر درست سمت کا تعین کریں‘‘ اب درست سمت کیا ہے۔ معذرت کے ساتھ آج جو ای او بی آئی پنشنرز میں مایوسی کی فضا برقرار ہے اس کی ذمہ دار بھی یہی فلاحی تنظیمیں ہیں۔ ای او بی آئی کے قانون میں بقول اسرار ایوبی یہ طے ہے کہ پنشن میں اضافے کا اختیار نہ صدر کو حاصل ہے نہ وزیراعظم کو اور نہ ہی ای او بی آئی کے چیئرمین کو بلکہ اس کا تعین بورڈ آف ٹرسٹیز کرتا ہے اور قانون کے مطابق اضافہ ہر 3سال بعد ہی ہوگا۔ گزشتہ بجٹ میں اسحاق ڈار نے ای او بی آئی کی پنشن میں 1500 روپے اضافے کا اعلان کیا تھا جو کہ ساڑھے 3سال کے بعد کیا گیا تھا (یہاں بھی حکومت نے بیچارے پنشنر کے 6ماہ کے بقایا جات ہڑپ کر لیے تھے) تو
تمام تنظیموں نے یہ سمجھا کہ شاید اب ہر بجٹ میں ان کی پنشن بھی سرکاری پنشنرز کی طرح بڑھ جایا کرے گی صرف اس ہی غلط فہمی کی وجہ سے پنشنرز میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔
اب ایک اور حقیقت بھی جان لیں ہم بھی کسی زمانے میں اس بات کے حامی تھے کہ ای او بی آئی پنشن کم از کم اجرت کے مساوی کر دی جائے یہ اس وقت کی بات ہے جب کم از کم اجرت 10 ہزار یا 12 ہزار ہوا کرتی تھی، آج کے دور میں 10 ہزار کے 35 ہزار یا 37 ہزار ہو جانا نا ممکنات میں سے ہے، ہم اس سے قبل بھی اپنے مضامین میں تحریر کر چکے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے ایک ڈیلی ویجز ورکر جو رقم روزانہ 8سے 10گھنٹے مزدوری کر کے اٹھاتا ہے ہمیں وہی رقم گھر بیٹھے مل جائے، کم از کم ہم تو اس کے حق میں نہیں پھر اس کا کیا حل ہے، اس کا حل یہ ہے کہ مساوی اجرت کے مطالبے سے دستبردار ہو کر سرکاری پنشنرز کے مساوی پنشن میں اضافے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے جس کے لیے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی احتجاجی مظاہرے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پریس کانفرنس کی بلکہ تمام تنظیمیں یہ کام اپنے اپنے شہروں میں رہتے ہوئے بھی باآسانی کر سکتی ہیں۔
گزشتہ سال جب ای او بی آئی کی پنشن 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کی تھی توPPP کے سینیٹر رضا ربانی نے ایوان بالا (سینیٹ) میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس اضافے کو نا کافی قرار دیا تھا یہ ای او بی آئی کے پنشنرز کے لیے پہلی آواز تھی جو منتخب ایوان میں بلند کی گئی مگر رضا ربانی کے پاس درست معلومات اور اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے وہ صرف ناکافی کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ ہم نے اس وقت بھی اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ رضا ربانی سے ملاقات کر کے نہ صرف ان کا شکریہ ادا کریں بلکہ ان کو مکمل معلومات فراہم کریں مگر ہمارے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جو ای او بی آئی کو صوبوں کے حوالے کرنے کی خواہش مند ہے، بات تو درست ہے مگر ملاقات کرنے میں کیا حرج تھا اور اب پھر ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں MQM کے رہنما امین الحق نے ای او بی آئی پنشن کو 10 ہزار سے 12 ہزار کرنے کا مطالبہ کیا ہے، مسئلہ ان کے ساتھ بھی وہی ہے ای او بی آئی ایک وفاقی ادارہ ہے لہٰذا ہم تمام ہی تنظیموں کے ساتھیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے شہروں میں رہتے ہوئے منتخب ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ سے رابطہ کر کے ان کو مکمل معلومات فراہم کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ ایوان میں اراکین پارلیمنٹ کو ای او بی آئی کی درست صورتحال سے آگاہ کریں اور ایوان میں ایک قرارداد منظور کرائی جائے کہ ای او بی آئی کی پنشن میں بھی سرکاری پنشنر کے مساوی اضافہ کیا جائے،
جب یہ قرارداد منظور ہو جائے گی تو ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹر سٹیز اپنے قانون میں ترمیم کر سکتا ہے اور یوں یہ مسئلہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام ہو سکتا ہے (اس سلسلے میں اسرار ایوبی سے بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے) اپیوا کی کور کمیٹی کے ارکان کو چاہیے کہ وہ کراچی کے منتخب ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز سے رابطہ کریں اور ان کو دستاویز ثبوت کے ساتھ ای او بی آئی پنشنر کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کریں اب انہیں ایم کیو ایم کے مرکز بھی جانا ہوگا اور پیپلز ہاؤس سے بھی رابطہ کرنا پڑے گا اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا گھنٹہ بھی بجانا چاہیے کہ وہ صوبے میں مرکز کے نمائندہ ہیں اور مرد مجاہد امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات بھی سود مند ثابت ہوگی۔ ہم یہ باتیں بہت پہلے بھی کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا اور ہم بریانی کھا کر واپس آگئے۔