عزم استحکا م آپریشن تنازعات کی زد میں

224

ابھی چین کے بین الاقومی امور کے وزیر اور کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن لیو جیانگ چائو کا طیارہ بیجنگ ائر پورٹ پر اترا بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے یہاں کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی خبریں انہیں پہنچ گئی ہوں گی۔ دراصل ہوا یہ کہ چینی وزیر کے سامنے جس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اکٹھے بیٹھے نظر آئے تھے اس سے ہمارے حکمران کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہو گئے اور انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری حاصل کرلی اس اجلاس میں آرمی چیف، تمام وزرائے اعلی، گورنرز، چیف سیکرٹریز، وزرائے داخلہ، اور وفاقی وزراء و دیگر شریک تھے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے قومی مہم کو از سر نو متحرک کیا جائے گا کسی کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے نہیں دیں گے دہشت گردی مقدمات میں رکاوٹ بننے والے قانونی سقم دور کے جائیں گے، متفقہ قومی بیانیہ کے لیے انفارمیشن کے کردار کا سہارا لینے کا فیصلہ بھی ہوا۔

کے پی کے، کے وزیر اعلیٰ اجلاس میں شریک تھے اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ پی ٹی آئی کی بھی حمایت اس فیصلے کو حاصل ہے جبکہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ اجلاس میں عزم استحکام آپریشن کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کا دو اہم نکات ہیں ایک تو یہ کہ اتنے بڑے اہم فیصلے کو ایپکس کمیٹی کے بجائے پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے اس طرح ہم نے پارلیمنٹ کی اہمیت اور اس کے وقار سے انکار کیا ہے۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ اس آپریشن کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ خدشہ رانا ثناء اللہ کے اس جواب سے پیدا ہوا جو انہوں نے کیپٹل ٹاک میں حامد میر کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس آپریشن کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ملک کے اندر ان لوگوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جو ان دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی بن رہا ہے کہ یہ آپریشن صرف کے پی کے اور بلوچستان میں ہوگا جبکہ سندھ میں بھی کچے علاقے میں ڈاکوئوں نے شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے وہ جس کو چاہتے ہیں اغوا کرلیتے ہیں اور مغوی پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو اس کے رشتہ داروں کو بھیج کر بھاری تاوان وصول کیا جاتا ہے اور پھر یہ بھی خبریں آئیں کہ سندھ کے وزراء کی گاڑیوں میں کچے کے علاقے کے ڈاکوئوں کو اسلحہ پہنچایا جاتا ہے۔ پولیس کا محکمہ ان ڈاکوئوں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے جب سے پی پی پی کی حکومت بالخصوص ان کا صدر آیا ہے ان ڈاکوئوں کی کارروائیاں پہلے سے بہت بڑھ گئیں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آصف زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کچے کے ڈاکوئوں سے بات چیت کرنے کے بعد اگر وہ اسلحہ پھینک دیں تو انہیں معافی دی جاسکتی ہے لیکن ٹی ٹی پی سے وہ مذاکرات کے خلاف ہیں۔

ایک پروگرام میں اینکر بتارہے تھے کہ اب تک ملک میں سات آپریشن ہوچکے ہیں یہ آٹھواں آپریشن ہے پہلا آپریشن 2003 میں جنوبی وزیرستان میں ہوا تھا جس میں مولوی نیک محمد مارے گئے تھے دوسرا آپریشن 2007 میں راہ حق کے نام سے سوات میں ہوا تھا تیسرا آپریشن 2009 میں سوات ہی میں آپریشن راہ راست کے نام سے ہوا تھا، چوتھا آپریشن سوات میں 2009 ہی میں آپریشن راہ نجات کے نام سے ہوا، پانچواں آپریشن 2014 میں ضرب عضب کے نام سے ہوا اس وقت نواز شریف صاحب وزیر اعظم اور جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے چھٹا آپریشن 2017 ردالفساد کے نام سے ہوا اور اب سات سال کے بعد آٹھواں آپریشن عزم استحکام آپریشن کے نام سے ہونے جارہا ہے۔ ایک سوال بڑی شدت سے یہ اٹھایا جارہا ہے کہ پہلے سات آپریشنوں کے کیا نتائج سامنے آئے کیا اس سے ملک میں دہشت گردی ختم ہو گئی 24جون کو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے اس وقت بھی اس حکمت عملی پر اعتراض کیا تھا سوات میں آپریشن ہوا آج 2024 میں اس کے کیا نتائج سامنے آئے کیا دہشت گردی ختم ہوئی یا پہلے سے بڑھ گئی انہوں نے کہا ہم آپ کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ آپ ہمیں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں سیاست کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں آپ پارلیمنٹ کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں آپ اس کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ہم چاہتے آپ اس راستے سے نکلیں باعزت طریقے سے نکلیں۔

اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر قانون عطاتارڑ دونوں یہ کہہ چکے تھے کہ یہ آپریشن ہو کر رہے گا۔ ان کے اس بیان کے بعد اہم سیاسی جماعتوں کی طرف مخالفت ہوئی اب جو سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کرہی ہیں ان میں پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی، اے این پی اور پختون خواہ عوامی ملی پارٹی۔ شامل ہیں اب حکومت کے موقف میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں رانا ثناء اللہ کہہ رہے تھے کہ یہ آپریشن تو پہلے سے ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا آپ دیکھ رہے ہیں آئے دن کے پی کے میں ہمارے فوجی افسران اور سپاہی شہید ہورہے ہیں البتہ انہوں نے ایک بات ایسی کہی جس سے پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی انہوں نے کہا اس دہشت گردی کی آڑ میں جو لوگ ملک کو عدم استحکام کا شکار دیکھنا چاہتے ہیں ان کا بھی حساب کتاب کیا جائے گا۔

اصل میں حکومت کے موقف میں شفافیت نظر نہیں آرہی اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان کے پاس بھی اس آپریشن کا مکمل نقشہ اور تفصیلی معلومات نہ ہوں اور بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ آپریشن تو پہلے سے چل رہا ہے اس میں تیزی لائی جائے گی ارے بھئی تو کس نے منع کیا تھا، اس تیزی کو کوئی نیا نام دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سوال پر کہ عزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لیے سیاستدانوں سے بات کی جائے، سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ فوج اپنے آئینی کردار سے نہیں ہٹے گی فوج شہباز شریف اور خواجہ آصف سے اس لیے بات کرتی ہے کہ وہ وزیر اعظم اور وزیر دفاع ہیں یہ کام پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ آپس میں مباحثہ کریں اور راستہ تلاش کریں فوج کو کہا جائے گا تو ڈی جی ایم او یا کوئی بھی افسر جس کی ڈیوٹی لگے گی وہ پارلیمنٹ کو ضرور بریفنگ دے گا۔

امریکا نے اس عزم استحکام آپریشن کی حمایت کی ہے۔ ایک طرف تو امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان میں 8فروری کے انتخابات کے حوالے سے ایک قرارداد منظور ہوئی ہے جس میں کہا گیا انتخاب میں دھاندلی کی تحقیقات ہونا چاہیے

جس کے جواب میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی ایک جوابی قرارداد منظور کی ہے، اس پر تو پھر کبھی بات کریں گے۔ کہنا یہ ہے کہ امریکا ایک طرف تو موجودہ حکومت کی تشکیل و ساخت پر قرارداد کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کررہا ہے دوسری طرف اسی حکومت کو آپریشن کے سلسلے میں اپنی حمایت کا یقین دلا رہا ہے۔ امریکا کا یہ بیان وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کے تناظر میں آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملے کیے جاسکتے ہیں امریکا تو چاہتا ہی یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جنگ ہو تاکہ دونوں اسلامی ملک کمزور ہوں۔ امریکا افغانستان سے جاتے وقت اپنا اتنا جدید اسلحہ کیوں چھوڑ کر آیا تھا آخر اس کی کوئی طویل منصوبہ بندی تو ہوگی۔ امریکا کو اس بات کا غصہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسے افغانستان میں شکست پاکستان کی وجہ سے ہوئی ہے وہ دونوں اسلامی ممالک کو لڑا کر اپنے غصے کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح اس نے ویت نام سے نکلنے کے بعد کمبوڈیا پر یہ کہہ کر بمباری کی تھی کہ اس نے ویتنام کی جنگ میں امریکا کا ساتھ نہیں دیا وہ پاکستان پر براہ راست بمباری تو نہیں کرسکتا اس لیے کہ پاکستان جاپان نہیں ہے۔ وہ اسی طرح پاکستان کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے کمزور کرنا چاہتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے دہشت گرد سی پیک پر کام کرنے والے چینیوں پر تو حملہ کرتے ہیں لیکن وہ ہزاروں چینی جو افغانستان میں ترقیاتی کام کررہے ہیں انہیں وہاں کی ٹی ٹی پی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ امریکا تو آسانی سے افغانستان میں چینی باشندوں پر حملہ کراسکتا ہے لیکن اس کی ساری دشمنی پاکستان سے ہے۔