پاکستان اور امریکا کے درمیان چھپی ہوئی کھینچا تانی پھر سامنے آنے لگی اور اب بہت واضح طور پر سفارتی گرما گرمی نظر آرہی ہے، امریکی ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کی تحقیقات کرائی جائے، یہ پاکستان میں جمہوریت کی حمایت میں قرار داد کی منظوری ہے، قرارداد کے حق میں 368 ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں صرف 7 ارکان نے ووٹ دیا، جمہوری عمل میں لوگوں کی بلا خوف شرکت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، قراردادمیں امیدواروں، ووٹرز کو ہراساں کرنے، تشدد، حراست، انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندی کی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستان نے قرارداد پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پاکستان کے انتخابی عمل سے نامکمل واقفیت کا نتیجہ ہے‘ ایسی قراردادیں تعمیری ہیں نہ بامقصد، اور یہ کہ قرار داد کی منظوری کا وقت درست نہیں، اس سے تعلقات پر اچھے اثرات نہیں پڑیں گے، کانگریس کو مشورہ دیا گیا ہے کہ امید ہے کانگریس تعلقات کی مضبوطی کے لیے موثر کردار ادا کرے گی، قرارداد میں سیاسی عمل کو تباہ کرنے کی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے حیرت انگیز طورپر امریکی قرارداد کے خلاف قرارداد لانے کا اعلان کیا بلکہ لے بھی آئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے امریکی قرارداد کا سخت نوٹس لیا ہے، اور اس کا جواب ضرور دیں گے۔ ہم بھی کسی ملک کیخلاف
ایسی قرارداد لاسکتے ہیں، دیگر ممالک کے حوالے سے 50 چیزوں پر تنقید کرسکتے ہیں۔ امریکا میں الیکشن کا سال ہے، پی ٹی آئی نے پاکستان کے خلاف قرارداد منظورکروائی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت ہونے کی بات بھی کہی، لیکن کیا وہ ایمانداری سے اس نظام کو جمہوریت کہہ سکتے ہیں، جس کی پیداوار نواز شریف، زرداری اور عمران خان ہوں خود ان کی حکومت فارم 47 کی حکومت ہے، وہ اسے پارلیمانی جمہوریت ثابت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی نے امریکی کانگریس میں قرارداد منظور کروائی ہے تو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ہونے کے ناتے ان کی اور حکومت کی بہت بڑی شکست اور ناکامی ہے پھر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سفارت کاروں کی قطار کیا صرف تنخواہیں لینے کے لیے بیٹھی ہے انہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ پاکستان کے جمہوری نظام پر ایوان میں قرارداد آنے والی ہے۔ اور 368 ووٹ اس کے حق میں پڑنے والے ہیں صرف سات ووٹ مخالفت میں پڑے ہیں، دفتر خارجہ کا یہ موقف بھی بودا ہے کہ امریکی قرارداد پاکستان کے انتخابی عمل سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، حالانکہ ہمارے حکمران اور اپوزیشن والے امریکیوں کے پاس جا جا کر اپنا پورا نظام پیش کرتے رہتے ہیں، حتی کہ دھاندلیوں کے الزامات طریقے اور قوانین تک پر بات کرتے ہیں۔ امریکیوں کے پاس جا جا کر ہمارے جرنیل۔ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور عمران خان مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا دائوں چل گیا وہ پارلیمانی ہیرو اور جس کے خلاف چل گیا وہ سائفر اور قرارداد کی منظوری کا ایک دوسرے پر الزام لگاتا ہے، پاکستان کے کون سے نظام کو ان لوگوں نے امریکا اور بڑی طاقتوں سے محفوظ رکھا ہے سب کچھ تو ان کے سامنے کھلا پڑا ہے، یہ درست ہے کہ امریکی الیکشن ہو رہے ہیں لیکن امریکی الیکشن یا حکومت کی تبدیلی اس کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت ان باتوں کا جواب دے جو قرارداد میں اٹھائی گئی ہیں۔ کیا تشدد، ووٹرز کے خلاف کارروائی، سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات، انٹرنیٹ کی بندش، فارم 47 کے نتائج یہ سب کچھ بولیویا میں ہوا تھا یا اسرائیل کے واقعات ہیں۔
امریکی قرارداد اور پاکستانی ردعمل کے ساتھ ہی امریکی مطالبہ یا ڈو مور سامنے آگیا اور امریکا نے حکومت پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کی حمایت کردی اور کہا ہے کہ سوات میں ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی موت پر افسوس ہے، مذہبی بنیادوں پر ہونے والے واقعات تشویش کا باعث ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی میں
پاکستان اور امریکا کا مفاد مشترک ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکا قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پیروی کرتے ہوئے دہشت گردی کے مقابلے کی حمایت کرتا ہے۔ ایک طرف پاکستانی جمہوریت پر سوالات ووٹرز کی فکر اور دوسری طرف شہریوں کے خلاف آپریشن کی حمایت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ قرارداد آپریشن یقینی بنوانے کے لیے دبائو کا حربہ ہے، اسے وہ سیکورٹی معاملات پر پاکستان اور امریکا کی شراکت داری قرار دیتا ہے۔ امریکی حکومت ہائی لیول کائونٹر ٹیررازم ڈائیلاگ اور کپیسٹی بلڈنگ پروگرام کے تحت ملٹری ٹو ملٹری رابطوں کے حق میں ہے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگ دہشت گرد حملوں سے بری طرح متاثر ہیں، کسی ملک کو ایسی دہشت گردی کا سامنا نہیں ہونا چاہیے، خطے کی سیکورٹی میں پاکستان اور امریکا کا مفاد مشترک ہے، سیکورٹی معاملات پر پاکستان اور امریکا کی شراکت داری میں دہشت گردی کے خلاف بات چیت اور فنڈز کی فراہمی شامل ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن گزشتہ کئی انتخابات سے پاکستانی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کی انتخابی دہشت گردی کا سامنا ہے، ملک میں بیش تر خرابیاں اسٹیبلشمنٹ کی پسند کی حکومت مسلط کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ حکومت جوابی قرارداد کے بجائے اس کی اصلاح کرے۔