وطن ِ عزیز کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہاں نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت ہے۔ اس تناظر میں ایک پختون سیاستدان نے کہا تھا کہ پاکستان اسلامی نظام کے لیے معرض و جود میں آیا تھا اس لیے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا مگر یہاں پر ایسا کوئی بھی ادارہ موجود نہیں جو اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہو۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے جمہوریہ پاکستان کہا جائے کیونکہ اسے عوامی جمہوریہ پاکستان بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں عوام کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ پختون رہنماء کا بیان اخبارات کی زینت بنا تو سیاست کی زینتوں نے شرم و حیاء کو بالائے طاق رکھ کر ایسے ایسے بیانات دیے جو عقل و دانش سے عاری تھے حتیٰ کہ اْن پر غداری کا الزام عائد کرنے پر بھی شرم محسوس نہیں کی۔ پاکستان معرضِ وجود میں آیا، آ تو گیا مگر اسلام آیا نہ جمہوریت آئی بلکہ حاکمیت کی ہوس نے مفادات اور تحفظات کی آبیاری کی۔
مولانا بھاشانی نے سلہٹ کے علاقے کو پاکستان میں شامل کرانے کی جو جدوجہد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے اسی طرح GM سید نے بمبئی کے کچھ علاقے کو پاکستان کا حصہ بنانے میں قابل ِ تحسین خدمات انجام دیں مگر وہ سیاستدان قیام پاکستان میں جن کا کوئی کردار نہیں اْنہوں نے ایسے تمام سیاستدانوں کو غدار قرار دے دیا۔ مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ تحریکِ پاکستان میں بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی دست راز تھیں۔ اْنہیں بھی غدار قرار دے دیا گیا۔ اس تناظر میں بعض بزرگوں کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناحؒ خوش نصیب تھے جو قیام ِ پاکستان کے چند ماہ بعد وفات پاگئے ورنہ… اْنہیں بھی غدار قرار دے دیا جاتا۔ اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریکِ پاکستان در اصل حاکمیت کی منزل تھی منزلِ مراد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام کے وعدے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں تھے اس تناظر میں خانِ اعظم باچاخان کا یہ کہنا درست ہے کہ قیام ِ پاکستان کی تحریک مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
وطن ِ عزیز کے ایک وزیر ِ اعظم کسی ملک سے قرض مانگنے گئے تو کہا گیا کہ آپ کو قرض کی کیا ضرورت ہے؟ آپ قرض لینے کے لیے دو سو سے زیادہ افراد کا وفد لیکر آئے ہیں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں 90 سے بھی کم سرکاری گاڑیاں ہیں اور پاکستان میں ایک شہر دارالحکومت اسلام آباد میں 90 ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں ان کے لیے پٹرول اور ڈرائیور کے اخراجات قومی خزانے پر ایسا بوجھ ہے جس نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ بد نصیبی یہ بھی ہے کہ عدلیہ مسلسل ایسے معاملات سے چشم پوشی کرتی ہے حالانکہ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر اس معاملے اْس نے چْپ شاہ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہمیں خبر ہے مجرموں کے ہر ٹھکانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
المیہ یہ بھی ہے کہ وطن ِ عزیز کا ہر بااختیار طبقے کے قول و فعل میں تصاد پایا جاتا ہے چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ وکلا کو کہا جاتا ہے کہ اپنے اعتراضات تحریری طور پر دیں مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں کیونکہ لکھنے سے ان کے ہاتھ دْکھنے لگتے ہیں شاید اسی پس منظر میں وکلا کہتے ہیں کہ جب تک عدلیہ اْن کا احترام نہیں کرتی وہ بھی اس کے رویے پر گامزن رہیں گے کیونکہ جسٹس صاحبان پیشی نہیں دیتے۔ بلکہ ریڈر سے کہتے ہیں لیفٹ اوور کردو اور ریڈر صاحب پیشی دینے کے بجائے سول برانچ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں گویا جسٹس صاحبان کے ہاتھ بھی بہت جلد تھک جاتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جسٹس صاحب ریڈر کو پیشی دینے کی ہدایت کرتے ہیں مگر صحبت کے اثر سے مجبور ہوکر پیشی کے لیے سول برانچ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہدایت کار نا اہل ہو تو فلم پِٹ جاتی ہے اسی طرح ہدایت در ہدایت کے باعث نظامِ عدل بھی پٹ چکا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مدعی کے وکیل نے کوئی دستاویز طلب کی تو جسٹس صاحب نے مخالف وکیل سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ جواباً وکیل صاحب نے کہا آپ فائل دیکھ کر فیصلہ کریں کہ ضرورت ہے کہ نہیں؟ جسٹس صاحب نے 25 جون 2024 کو فیصلہ سنانے کا کہا مگر 25 جون 2024 کو پیشی منسوخ کر دی گئی۔ منسوخی کا سبب پوچھا گیا تو کہا مخالف وکیل نے چھٹی کی درخواست دی ہے گزشتہ 6 ما ہ میں چھٹی کی یہ دوسری درخواست ہے۔ اگر جسٹس صاحب کو اپنی ذمہ داری کا احسا س ہوتا تو پیشی منسوخ کرنے کے بجائے مخالف وکیل کو لائسنس منسوخ کرنے کی وارننگ دیتے۔