جو قومیں اپنے محسن اور ہیروز کو بھلا دیتی ہیں

659

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ اقوام کی ترقی اور انقلاب میں ان کے محسنوں اور ہیروز کا اہم کردار ہوتا ہے، محسن اور ہیروز وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی غیر معمولی قابلیت، جرأت، اور قربانیوں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کی مشکلات کا حل نکالتے ہیں اور انہیں ایک روشن مستقبل کی طرف لے جاتے ہیں۔ مگر جب قومیں اپنے محسنوں اور ہیروز کو بھلا دیتی ہیں، تو ان کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے اور انقلاب برپا کرنے کی قوت کھو دیتی ہیں، محسن اور ہیرو قوم کے ستون ہوتے ہیں، ان کے بغیر قوم کا تصور ناممکن ہے، یہ لوگ اپنی زندگی کو قوم کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ان کی بصیرت، علم، اور جرأت قوم کو مشکلات سے نکالتی ہے اور انہیں نئی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ ان کی خدمات کو یاد رکھنا اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے، جب قومیں انہیں بھلا دیتی ہیں تو وہ اپنے تاریخی ورثے سے بھی کٹ جاتی ہیں، جس سے ان کی پہچان بھی ختم ہو جاتی ہے، نئی نسل کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کو اپنے محسنوں اور ہیروز کی خدمات کو نہ صرف تعلیمی نصاب میں بلکہ عملی میدان میں بھی ان کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف اْن کو حوصلہ ملے گا اور وہ انہی کے نقش قدم پر چل کر قوم کی خدمت کریں گے، اگر یہ لوگ بھلا دیے جائیں تو نئی نسل کو کوئی مثالی کردار نہیں ملے گا اور وہ اپنی راہ اور اپنی منزل کھو دیں گے، اور یوں قومی وحدت کا بھی فقدان ہو گا، افراد قوم کو ایک دھاگے میں پروتے ہیں، ان کی یاد قوم کو متحد رکھتی ہے۔ اگر انہیں بھلا دیا جائے تو قوم کی وحدت میں دراڑ آ جاتی ہے۔

محسنوں کی قربانیاں قوم کو یہ سکھاتی ہیں کہ قوم کی ترقی کے لیے قربانی دینا ضروری ہے یہ جذبہ قوم کو مشکلات کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے، اس کی بہترین مثال آقاے دوجہاں سیدنا محمد مصطفیؐ کی ہمارے سامنے ہے، ان کی قیادت اور تعلیمات نے عرب معاشرے میں انقلاب برپا کر کے دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں شامل کیا، لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے اصل دین کو چھوڑا اور اس کی تعلیمات سے دور ہوئے، وہ زوال پذیر ہو گئے، ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور جدید طرز زندگی نے انسانوں کو اپنے ماضی سے دور کر دیا ہے، اس لیے قوموں کی نوجوان نسلیں اپنے محسنوں اور ہیروز کی قربانیوں سے ناواقف ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ رجحان نہایت خطرناک ہے کیونکہ اس سے قوم کی شناخت اور خودی متاثر ہوتی ہے، آج ہمارے زوال اور پستی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری نسلیں گزشتہ 40 سال سے ایک کرپٹ اور مفاد پرست حکمرانوں کے ٹولوں کے علاوہ کسی سے بھی واقف نہیں، کیونکہ سارا دن الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اْس پر صرف ان ہی لوگوں کے گْن گائے جاتے ہیں، جو ہماری نئی نسل کی تباہی کا ذمہ دار ہے، پاکستان کے لیے بے شمار قربانیاں دینے والوں کو تو ہم نے فراموش کر دیا ہے، ہمارا سب سے بڑا فقدان یہ ہے کہ پوری اسلامی دْنیا میں میں کوئی لیڈر شپ نہیں ہے بلکہ مْنافقوں کی ایک فوج کھڑی ہے، جس نے اپنے محسنوں کو فراموش کر دیا ہے، وہ تمام لوگ جنہوں نے پاکستان بنانے یا اس ملک کی آزادی یا ملک کے نظریے کی حفاظت کی ہو یا سرحدی معاملات میں اپنی جانوں کے نذرانے دیے اور اس راہ حق میں شہید ہوئے آج اْن کا نام و نشان تک نہیں ملتا، مگر پاکستان کے وہ چند خاندان جو اس راہ سفر میں شریک تک نہ تھے جن کا رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی حصہ نہیں تھا، جو قیام پاکستان کے وقت انگریزوں کے وفادار رہے اْن کے نام آٹے اور چاول کی بوری تک میں نمایاں ہیں، اور اْن کے نام آج بھی زندہ ہیں، جنہوں نے پاکستان بنایا وہ گمنام ہیں، چور اْچکے اس ملک کے ہیرو بن گئے، یہ، یہ ہے ہمارے ملک کا المیہ، یہ چند نام جو میں نے لکھیں ہیں کسی نوجوان نسل سے پوچھیں تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔

پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چودھری رحمت الٰہی سے کون واقف ہے؟ تحریک پاکستان کے سرگرم رْکن سردار عبدالرب نشتر کو کون جانتا ہے؟ مسلمانوں کے لیے علی گڑھ میں نمایا ں خدمات دینے والے جناب نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک سے کون واقف ہے؟ علم و ادب کے شعبے میں اس ملک کا وقار بلند کرنے والوں سے ہماری نوجوان نسل شاید ہی کسی کو جانتی ہو، بابائے اردو کا خطاب پانے والے جناب مولوی عبدالحق کو کون جانتا ہے، حسرت موہانی کون تھے؟ ابراہیم جلیس ہوں یا احسان دانش، جوش ملیح آبادی ہوں رشید احمد صدیقی یا سعادت حسن منٹو ایسے سیکڑوں نام میں آپ کو گنوا سکتا ہوں جو ہمارے ملک کا فخر ہیں مگر ہم نے سب کو فراموش کر دیا ہے، آج کی نسلوں کو صرف وہ لوگ یاد ہیں جن پر درجنوں مقدمات چل رہے ہوں اور جو چوری اور اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں، وہ ہی قوم کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں، اسی لیے کہیں نصرت بھٹو کالونی ہے کہیں الطاف نگر ہے تو کہیں شہباز نگر تو کہیں زرداری کالونی، تو پھر ہماری تباہی اور بربادی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، کیونکہ جیسے ہم ہیں ہمیں لیڈر بھی ویسے ہی پسند آتے ہیں، یاد رکھیں اپنی تاریخ، ثقافت اور محسنوں کی خدمات کو یاد رکھنا قوم کی بقاء اور ترقی کے لیے لازمی ہے، اپنے ہیروز کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کر کے ہی ہم ایک مضبوط اور مستحکم قوم بن سکتے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اپنے بزرگوں اور محسنوں کی خدمات کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے، اور اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر چلنے والا بنا دے۔ (امین)