پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی بنائی جاتی ہے، اعجاز عمر

221

کراچی (پ ر) توانائی کی پیداوار کے شعبے کے بین الاقوامی ماہر اعجاز عمر نے کہا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی بنائی جاتی ہے۔ توانائی کی منصوبہ بندی کرنے والے سرکاری ادارے برسوں سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں جس کا نتیجہ آج توانائی کے بحران کی صورت میں نکل رہا ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ اتوار کو دفتر جماعت اسلامی ضلع وسطی میں “پاکستان میں توانائی کا بحران اور آئی پی پیز کا کردار” کے موضوع پر لیکچر دے رہے تھے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی ضلع وسطی سید وجیہ حسن نے بھی خطاب کیا۔ لیکچر میں متعلقہ شعبے کے افراد کے علاوہ چھوٹے صنعت کاروں، بزنس مین طبقے کے نمائندوں اور طلبہ نے بھی شرکت کی۔ اعجاز عمر نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے ماضی اور حال کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 1981ء میں ملک میں ہائیڈل پاور 70 فیصد اور تھرمل پاور 30 فیصد تھی جو 2015ء میں بالکل برعکس ہو کر بالترتیب 30 فیصد اور 70 فیصد ہوگئی۔ تھرمل بجلی کی پیداوار کے لیے ہمیں تیل خریدنے کی خاطر بھاری زرمبادلہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1994ء میں جب آئی پی پیز کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی تو بجلی کی لاگت 2 روپے فی کلو واٹ تھی جو آج کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ایک تو تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا، نیز ڈالر جو تب 30 روپے کا تھا آج تقریباً 300 روپے کا ہے۔ انہوں نے توانائی کے سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کے علاوہ بجلی کی چوری کو بھی بحران کا ایک سبب بتایا۔ 40 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے جس سے ہونے والے نقصان کا بوجھ بھی قانون پسند شہریوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اعجاز عمر نے شرکا کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے انگلینڈ کے قانون کے تحت ہوئے جبکہ سی پیک معاہدے چین کے قانون کے تحت۔ ان معاہدوں میں پاکستان کہاں ہے؟ اسی لیے پاکستانی عوام کے مفادات کو ایک تو تحفظ نہیں مل رہا، دوسری جانب تمام نقصانات بھی ان ہی عوام کے حصے میں آ رہے ہیں۔ یہ ناقابلِ برداشت بوجھ دراصل متعلقہ سرکاری اداروں کی شدید غفلت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے شمسی اور ہوائی (ونڈ) توانائی کو مستقبل کے اہم ذرائع قرار دیا اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی معاہدوں میں پیش آنے والے تنازعات کے تصفیے میں پاکستانی وکلا کی ناقص کارکردگی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ کسی بین الاقوامی عدالت میں ایسے تصفیے کبھی پاکستان کے حق میں نہیں ہوئے۔ لیکچر کے آخر میں سید وجیہ حسن نے کہا کہ آئی پی پیز کے حوالے سے ہمارے اداروں کی ناقص کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے تو آخر کار غلط سیاسی فیصلے ہی اصل وجہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا حل بھی درست سیاسی فیصلے ہی کریں گے جس کے لیے جماعت اسلامی جدوجہد کر رہی ہے۔ انہوں نے آئندہ بھی اہم ملکی مسائل پر لیکچر منعقد کرنے کا اعلان کیا۔