بجٹ معیشت اوربرآمدات دشمن ہے واپس لیا جائے ،تاجر برادری کا مطالبہ

128

یہ الگ بات کہ ہر صورت بجٹ منظور کر لیا گیا ہے ۔ہ تما م پارٹیاں جن کا ہر وقت یہی نعرہ ہو تا ہے کہ عوام کی اقتصادی بقا وسلامتی اور ملک کی معاشی ترقی ان کے اقتدار کا محور ہے پورا پاکستان بجٹ کے خلاف آواز بلند کر نے میں مڈصروف ہے ۔ملک بھر کی تاجر برادری بجٹ کو یکسر مسترد دیا ہے ۔اس سلسلے میں ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ، ملبوسات، کپڑا، ڈینم، تولیہ، بیڈ ویئر، دستانے، چمڑا، ٹینری، قالین، کھیل، سرجیکل، چاول، پھل، سبزیاں اور فشریز سے وابستہ پاکستان کی تمام ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز ، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریاور پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی مشترکہ بیان میں کہا کہ اینٹی ایکسپورٹ فیڈرل بجٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ فائنل ٹیکس ریجیم کے مجوزہ خاتمے اور دیگر اینٹی ایکسپورٹ ٹیکسیشن اقدامات ناقابل قبول ہیں جس کے تباہ کن اثرات کے نتیجے میں برآمدات میں کمی آئے گی اور اس کے باعث زرمبادلہ کی کمائی میں بھی کمی ہوگی، قومی خزانے کے لیے محصولات بری طرح متاثر ہوں گی اور لاکھوں کی تعدادا میں شہری افرادی قوت بے روزگار ہو جائے گی۔ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز اور چیمبرز نے بیک وقت آج کراچی، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور ملتان سے شرکت کی۔پاکستان کی تمام ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز کے چیف کوآرڈینیٹر اور ترجمان محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان بھر کے ایکسپورٹرز نے وفاقی بجٹ میں نارمل ٹیکس کے مجوزہ نفاذ اور ایکسپورٹرز کے لیے فائنل ٹیکس ریجیم کو ختم کرنے کی تجویز کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ مجوزہ اقدام سے ایف بی آر کے اہلکاروں کی بلاجواز مداخلت ہو گی اور بدعنوانی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ فی الحال، ایف ٹی آر کے تحت 1فیصد ٹیکس کٹوتی ایک شفاف طریقے سے انسانی مداخلت کے بغیر، برآمدی آمدنی کی وصولی پر، منافع یا نقصان سے قطع نظر، الیکٹرانک طریقے سے کی جاتی ہے۔

ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر خزانہ ،چیئرمین ایف بی آر یا وزیر تجارت میں سے کسی بھی شخص نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز سے وفاقی بجٹ کی تجاویز 2024-2025 کے لیے مشاورت یا رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت ہمیشہ موجودہ ٹیکس دہندگان خصوصاً ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ہی کیوں دباتی ہے؟ برآمد کنندگان حکومت کے لیے زرمبادلہ کما رہے ہیں، جو حکومت کے لیے سب سے زیادہ ریونیو پیدا کر رہے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں سب سے زیادہ شہری روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں حکومت کی جانب سے کوئی بھی غیر ضروری مہم جوئی اور غیر دانشمندانہ اقدام ان نازک معاشی حالات میں کارکردگی دکھانے والے واحد برآمدی شعبے کو تباہی کی طرف دھکیل دیں گے جس سے امن و امان کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت نے صرف چند بڑے صنعتکاروں کو مشاورت کے لیے بلایا اور ڈی جی ٹی او کے تحت وفاقی وزارت تجارت میں رجسٹرڈ ایسوسی ایشنز اور چیمبرز کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت پاکستان کے برآمد کنندگان اور تاجر برادری کے ساتھ غیر جمہوری سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز کا موقف تھا کہ اگر حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے اپنی نتیجہ خیز پالیسیاں نہیں لا سکتی اور اسے نافذ نہیں کر سکتی تو اسے خطے کے دیگر ممالک کے ماڈل سے سیکھنا چاہیے۔ اگر حکومت خطے کے کسی ملک کی طرز پر اپنی پالیسیاں وضع کرے اور ایکسپورٹرز کو مراعات دیتو برآمد کنندگان اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ برآمدات میں اضافے کے نئے سنگ میل حاصل کریں گے۔
ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز آف پاکستان نے آواز اٹھائی کہ ایکسپورٹرز کو 1 فیصد ٹرن اوور پر مبنی فائنل ٹیکس ریجیم سے نارمل ٹیکس ریجیم پر منتقل کر کے منافع پر 29 فیصد پر ٹیکس لگانے کی مجوزہ سفارشارت برآمدات کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی لہٰزا اس تجویز کو فنانس بل 2024سے فوری خارج کیا جائے۔ ٹیکس کا یہ غیر شفاف اقدام ریونیو بڑھانے کے ارادے سے نہیں بلکہ ایف بی آر کے ہاتھوں کرپشن اور ہراساں کرنے کے دروازے کھولنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ ایکسپورٹرزٹیکس کے علاوہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کے طور پر 0.25 فیصدادائیگی کر رہے ہیں۔

ایکسپورٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ زمینی حقیقت کا ادراک کیے بغیر اور اسٹیک ہولڈرز ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کو شامل کیے بغیر یکطرفہ اور من مانے طور پر سخت مخالف ایکسپورٹ ٹیکس لگانے سے برآمدات میں زبردست کمی کے ساتھ برآمدی کاروبار اور صنعتیں بند ہو جائیں گی جس کی وجہ سی ملکی ایکسپورٹ اور زرمبادلہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی۔
کراچی چیمبر آف کامرس و انڈسٹری کے صدر افتخار احمد شیخ، ?فیصل آباد چیمبر کے صدر ڈاکٹر خرم طارق، سیالکوٹ چیمبر کے صدر عبدالغفور ملک، پاک افغان جوائنٹ چیمبر کے صدر جنید ماکڈا نے بھی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نقطہ نظر کی تائید کی اور یقین دلایا کہ وہ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز کے ساتھ ایک پیج پر ہیں تاکہ پاکستان کی برآمدات کو فروغ ملے اور ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ قومی مفاد میں برآمد کنندگان کی شکایات کو فوری طور پر دور کرے۔
ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز آف پاکستان نے کہا کہ برآمدات ہی پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے واحد لائف لائن ہے۔ ایکسپورٹس کو گزشتہ تین سالوں کے دوران عالمی سست روی اور سیاسی کشمکش اور ناکامی کے پیش نظر خطرات اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ برآمدات کو بچانے کا مطلب ہے پاکستان کی معیشت کو بچانا۔ حکومت کے ٹیکس مشیر حکومت اور دیگر حلقوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ ایکسپورٹرز بہت زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برآمد کنندگان انتہائی معمولی اور کم مارجن پر کاروبار کرتے ہیں۔ حکومت کے ٹیکس ایڈوائزر یہ بتانا چاہیں گے کہ اگر ایکسپورٹ اتنا منافع بخش کاروبار ہے تو پھر برآمد کنندگان کی تعداد کیوں کم ہو رہی ہے اور برآمدات میں کمی کے رجحان کا سامنا کیوں ہے؟ کم منافع کے مارجن، مسابقت سے محرومی، برآمدات کے لیے مینوفیکچرنگ کی زیادہ لاگت کی وجہ سے برآمد کنندگان دوسرے کاروباروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط فہمی ہے کہ برآمد کنندگان زیادہ منافع کماتے ہیں۔

برآمد کنندگان نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم کے تحت مقامی سپلائیز پر زیرو ریٹنگ ختم کرنے کی تجویز سے برآمدات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رجسٹرڈ ایکسپورٹرز کو مقامی سپلائیز پر زیرو ریٹنگ ختم کرنے سے ایکسپورٹرز ایف بی آر سے سیلز ٹیکس کے ریفنڈز کا دعویٰ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پہلے ہی اربوں روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز حکومت کے پاس پھنسے ہوئے ہیں۔ اس لیے، اس منفی تجویز کو بھی فنانس بل 2024 سے خارج کر دیا جانا چاہیے۔ برآمد کنندگان اپنے سیلز ٹیکس ریفنڈز کو فاسٹر نظام کے ذریعے الیکٹرانک طریقے سے فائل کرتے ہیں جس پر انسانی مداخلت کے بغیر الیکٹرانک طریقے سے کارروائی بھی کی جاتی ہے اور ان کے ریفنڈ کے کلیمز بھی الیکٹرانک طریقے سے ادا کیے جاتے ہیں۔

برآمد کنندگان نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 37 کے تحت مجوزہ تحقیقاتی آڈٹ کو بھی مسترد کر دیاجس کے تحت ایف بی آر حکام کو غیر معمولی اختیاراتدینے کی تجویز ہے۔مزید برآں، دھوکہ دہی کی تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے، جس سے حکام کو دھوکہ دہی کے کسی بھی الزام کی صورت میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے 15 سال تک کا ریکارڈ طلب کرنے کے قابل بنایا گیا ہے جس کی تعمیل ممکن نہیں ہوگی۔ پچھلی تعریف کے تحت، ٹیکس دہندگان کے لیے ریکارڈ برقرار رکھنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چھ سال تھی۔لہذا، برآمد کنندگان نے مطالبہ کیا کہ اسے بھی فوری طور پر واپس لیا جائے۔
ٹیکسٹائل پالیسی 2020-2025 کے مالیاتی میٹرکس کی معطلی کے بعد ایکسپورٹرز ڈیوٹی ڈرابیک آن لوکل ٹیکسس لیویز سے محروم ہو چکے ہیں۔ علاقائی طور پر مسابقتی توانائی نرخ پہلے ہی حکومت ختم کر چکی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز خطے میں مقابلے کیلئے برابری کی سطح پر مسابقت سے محروم ہو چکے ہیں۔نیپرا یکم جولائی 2024 سے بجلی پر فکسڈ چارجز کو موجودہ 440روپے سے بڑھا کر 2000تک بڑھانے پر بھی غور کر رہا ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹس کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو گا اور ایکسپورٹ صنعتیں ناقابل عمل ہو جائیں گی۔

برآمدی صنعتوں کو پہلے ہی مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ وہ وفاقی حکومت، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی متعدد ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتیہیں جس میں 18 فیصد سیلز ٹیکس، ای او بی آئی، سیسی، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج شامل ہیں۔حکومت ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس کے کلیمز کی ادائیگی میں اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کرتی اور ادائیگیوں میں ایکسپورٹرز کو بلاجواز تاخیر کا سامنا ہے۔پاکستان کو ملک کی تاریخ میں مینوفیکچرنگ کی اب تک کی سب سے زیادہ لاگت کا سامنا ہے جس کا پیداوار پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور منافع میں کمی آتی ہے۔ صنعت کو اب تک کے سب سے زیادہ توانائی کے نرخوں اور مہنگے صنعتی خام مال کی وجہ سے بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے صنعت کے بہت سے طبقات کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ برآمد کنندگان کے لیے ٹیکس کے نظام میں مجوزہ تبدیلیاں نقصان دہ ہوں گی اور حکومت کو متعدد معاملات پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں زبردست کمی آئے گی اور پاکستان کے زرمبادلہ کی آمدنی میں بھی کمی آئے گی۔ اس طرح مجموعی ٹیکس ریونیو میں کمی ہو گی جو انڈسٹری ادا کرتی ہے، اس طرح ٹیکس ریونیو میں اضافے کا پورا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستانی برآمدی صنعت کو درپیش مسابقت کے فقدان کی وجہ سے، برآمدی مواقع دوسرے علاقائی ممالک جیسے بھارت، بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ویتنام وغیرہ حاصل کر لیں گے۔ بلکہ کاروبار اور صنعتیں پاکستان سے باہر ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے پر مجبور ہوں گی۔حال ہی میں پرنٹ میڈیا میں یہ بات بھی نمایاں ہوئی ہے کہ 50 فیصد صنعتی یونٹس نے اپنی پیداوار بند کر دی ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز کی 25 فیصد رکنیت میں بھی کمی آئی ہے۔ ملک کے جی ڈی پی میں 8.5فیصد حصہ فراہم کرنے والی اور زرمبادلہ میں 60فیصد حصہ فراہم کرنے والی ایکسپورٹ انڈسٹریز کا حکومت پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب حکومت ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب کو وسیع کرنے کے بجائے برآمد کنندگان پر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی اپنی ذمہ داری کو منتقل کرنا چاہتی ہے۔