مذہب اور انتہا پسندی

320

یہ عصری زندگی کا ایک دلچسپ لطیفہ ہے کہ انتہا پسندی کو مذہب، مذہبی زندگی اور مذہبی طرز احساس کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے آپ ایک تاجر کی حیثیت سے اپنے شب وروز کو تجارت کے لیے مخصوص کر سکتے ہیں، اپنے ایک ایک لمحے کو پیسہ کمانے پر صرف کر سکتے ہیں، اس عمل کے دوران دوسرے تاجروں کی ٹانگ گھسیٹ سکتے ہیں، ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کی حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ کو کوئی انتہا پسند نہیں کہے گا بلکہ اس کے برعکس آپ ایک کامیاب تاجر اور ایک آئیڈیل بزنس مین کہلائیں گے۔ آپ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی کھیل کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے صرف اور صرف کھیل کی باتیں کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ ایک انتہا پسند انسان نہیں کہلائیں گے بلکہ آپ کو ایک مثالی کھلاڑی اور قوم کا ہیر وقرار دیا جائے گا۔ آپ ایک ماڈل اور ایک اداکار کی حیثیت سے پوری زندگی فن اور اس کی خدمت کے لیے وقف کر سکتے ہیں اور اپنے خیالات اور عمل کے ذریعے قوم کے بچے بچے کو اپنے فن کی جانب راغب کر سکتے ہیں مگر آپ کو انتہا پسند کہنے والا کوئی نہ ہوگا۔ البتہ اگر آپ مذہب کی جانب راغب ہو گئے اور آپ نے مذہب کو پوری زندگی پر عائد کر لیا تو پھر یقینا آپ کو ایک انتہا پسند کی شہرت حاصل کرنے میں دیر نہیں لگے گی، اس عمل کا آغاز کہیں اور سے نہیں خود آپ کے اپنے گھر سے ہوگا۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ خیالات، طرز زندگی اور طرز احساس کا نہیں۔ خیالات، طرز زندگی اور طرز احساس پر اصرار اور انہیں دوسروں پر تھوپنے کا ہے۔ اس مؤقف کے حامل افراد کا اصرار ہے کہ مذہبی لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے طرزِ احساس اور طرزِ زندگی پر اصرار کرتے ہیں بلکہ اسے دوسروں پر تھوپتے بھی ہیں۔ یہی انتہا پسندی ہے اور یہی قابل مذمت بات ہے۔ یہ رائے غلط نہیں۔ بہت سے مذہبی لوگ یقینا ایسے ہی ہوتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل صرف مذہبی لوگ ہی تو اختیار نہیں کرتے۔ لبرل کہلانے والے اس میدان میں مذہبی لوگوں سے پیچھے نہیں، ان سے آگے ہیں۔ ہماری موجودہ اجتماعی زندگی کا منظر نامہ اس کا بین ثبوت ہے، کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ اس وقت ’’رول ماڈلز‘‘ کی جو فہرست مقبول عوام و خواص بنی ہوئی ہے اس میں مذہبی انسان کا نام کہیں درج نہیں، اس فہرست میں اداکار ہیں۔ کھلاڑی ہیں، رقاص ہیں، گلوکار ہیں، تاجر و صنعت کار ہیں، بیوروکریٹ ہیں، فوجی ہیں اور سیاستدان ہیں۔ نجی گفتگو میں ہوں یا ذرائع ابلاغ ہر جگہ ان ہی رول ماڈلز کا ذکر ہے، ان ہی کی چہرہ نمائی ہے، ان ہی کے کارناموں کے چرچے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معیارات اور اپنے بیانیے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں وہ تو عملاً اپنے معیارات اور پیمانے معاشرے پر تھوپ رہے ہیں اور مختلف ذرائع اور عنوانات کے تحت ان پر دن رات اصرار کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں بین الاقوامی منظرنامے پر ایک نگاہ ڈال لینا بھی مفید مطلب ہوگا۔ مغربی دنیا اس وقت لبرل ازم، آزادی اور آزاد خیالی کی علامت بنی کھڑی ہے اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف دنیا بھر میں جو باتیں ہو رہی ہیں ان کا سر چشمہ کسی نہ کسی اعتبار سے جدید مغرب ہی بنا ہوا ہے، لیکن خود مغرب کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اقدار کو آفاقی اقدار قرار دے رہا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ پوری دُنیا ان اقدار کو تسلیم کرے کیونکہ ان ہی اقدار کی بنیاد پر کوئی ’’مہذب‘‘ معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ مغربی دُنیا اس مؤقف پر صرف اصرار ہی نہیں کر رہی بلکہ وہ ذرائع ابلاغ کی یلغار اور مختلف پالیسیوں کے ذریعہ اپنے موقف کو پوری دنیا پر تھوپ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی انتہا پسندی ہے جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن اس کے باوجود مغرب نہ انتہا پسند ہے اور نہ انتہا پسندی کا قائل۔ بلکہ اس کے برعکس وہ درگزر، میانہ روی، نرم خوئی اور متوازن طرزِ فکر کی علامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
جدید مغرب جب انتہا پسندی اور تنگ نظری کو مذہب سے منسلک کرتا ہے تو دراصل اس کی آواز میں چرچ اور ریاست کی علٰیحدگی کے اسباب و محرکات کلام کرتے ہیں۔ اصلاح مذہب کی نام نہاد تحریک بولتی ہے، کلیسا اور عوام کی کشمکش گفتگو کرتی ہے، مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربے کو ایک عمومی شکل دیتا ہے اور اپنے تجربات کا اطلاق ہر مذہب پر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی اور تاریخی نوعیت کا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ جب بات یہاں تک پہنچتی ہے تو پھر کلیسا کے جبر کی بات ہوتی ہے اور جب کلیسا کے جبر کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کلیسا کا جبر واقعتا ہولناک تھا اور اس نے اپنے خلاف بغاوت کی راہ خود ہی ہموار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو کلیسا کے خلاف جدید مغرب کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں اور اس امر پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلام میں کسی کلیسا کا وجود نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے، یہ کئی اعتبار سے ایک گمراہ کن طرز فکر ہے۔ کلیسا کا جبر یقینا بہت بُری چیز ہو گا لیکن سیکولر مغرب کے جبر سے کلیسا کے جبر کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ جدید مغرب کو اپنا جبر مسلط کرنے کے لیے جو ذرائع، وسائل اور جو ذہنی فضا دستیاب ہے بیچارہ کلیسا تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اکبرالہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ تو جبر ہے، جبر کے طریقے بدل جانے سے ہیں، جبر ختم نہیں ہوتا۔ جدید مغرب کا کمال یہ ہے کہ اس نے جبر کے ایسے طریقے ایجاد کر لیے ہیں جو جبر کے بجائے آزادی محسوس ہوتے ہیں۔ کلیسا کے زمانے کا معاشرہ آزاد فکری کا مظاہرہ کرنے والوں کو یقینا ہلاک کر دیتا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جدید مغرب اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو زندہ رہنے کا حق دے رہا ہے؟ کلیسا کے دور کا معاشرہ لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہوگا لیکن وہ انسانوں کو ’’ترک‘‘ نہیں کرتا تھا۔ جدید مغرب نے جو معاشرہ پیدا کیا ہے اس کا تو طرہ امتیاز ہی یہ ہے کہ درجنوں بنیادوں اور سیکڑوں مراحل پر انسان کو ’’ترک‘‘ کر دیتا ہے، انہیں یکسر نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ بات انسانوں کو ہلاک کر دینے سے کم خوفناک نہیں۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب معاشرے کے ترک شدہ اور نظر انداز کیے ہوئے لوگوں کی زندگی کا تجربہ اپنی تفصیلات کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ لیکن معاف کیجیے گا! یہ تو ایک طویل جملہ معترضہ تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مذہب اور انتہا پسندی کے تعلق سے جو باتیں کہی جاتی ہیں کیا وہ سب غلط ہیں، افسانے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ ان میں صداقت موجود ہے۔ مگر یہ بات وضاحت طلب ہے۔
فراق گورکھپوری نے غزل کو انتہاؤں کا سلسلہ کہا ہے۔ اس عہد کا معاملہ بھی بہ انداز دیگر یہی ہے۔ ایک مسئلہ تو یہی ہے کہ اس عہد کے سماجی، نفسیاتی اور سیاسی اور اقتصادی، حالات نے انسان کی نفسیاتی اور جذباتی زندگی کے دھاگوں میں اتنی گرہیں ڈال دی ہیں کہ چار بالشت اِدھر جائے یا اُدھر، ایک گرہ ایک انتہا لازماً آ جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس دور کا ’’ردھم‘‘ ایسا ہے کہ انسان کسی نہ کسی انتہا پر جائے بغیر اپنے آپ کو ’’محسوس‘‘ نہیں کر پاتا۔ محبت ہو یا نفرت، تعلق ہو یا بے تعلقی ، حساسیت ہو یا بے حسی، سیاست ہو یا معیشت انتہا پسندی زندگی کا تقاضا نہیں بجائے خود زندگی بن گئی ہے۔ تیز لہجے اور بلند آوازیں عصری زندگی کے آرائشی ساز و سامان کا حصہ ہیں۔ بعض لوگوں کی مذہبیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ جب تک انتہا پسند نہیں بن جاتے انہیں اپنی مذہبیت کی سچائی کا یقین ہی نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کا مذہب حقیقی معنوں میں کوئی رہنما قوت نہیں ہے بلکہ ان کا مذہب بھی عصر حاضر کے ’’ردھم‘‘ کا حصہ ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ مذہب پرستوں کو تاجروں، کھلاڑیوں اور کیریئر سٹوں کی طرح ’’کامیاب‘‘ ہونے کا مرض لاحق ہو گیا ہے، حالانکہ مذہب ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے دائرے میں نیت کا اخلاص اور سمت کی درستی ہی سب کچھ ہے۔ نتیجہ کیا نکلے گا کب نکلے گا؟، یہ مذہب کے دائرے میں زندگی بسر کرنے اور جدو جہد کرنے والوں کا مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’کامیابی‘‘ کی امید اور خواہش ہی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان اخلاص کے ساتھ جدو جہد کرتا ہے اور اللہ تعالی سے بہترین نتیجے کی توقع رکھتا ہے لیکن امید اور خواہش رکھنا اور کامیابی کو پرستش کی حد تک چاہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس لیے کہ کامیابی کی پرستش انسان کو انتہاؤں کی جانب دھکیلتی ہے۔ بعض لوگوں کی مذہبی انتہا پسندی اسی مسئلے سے جنم لیتی ہے۔ ان نکات کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انتہا پسندی صرف مذہب اور مذہبی لوگوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ انتہا پسندی زندگی کے ہر دائرے میں ظاہر ہو رہی ہے لیکن چونکہ دنیا کے اقتدار اور وسائل پر غیر مذہبی عناصر کا غلبہ ہے، اس لیے وہ ایک شرمناک تنگ نظری، جہل اور تعصب کے زیر اثر انتہا پسندی کو صرف مذہب اور مذہبیت سے وابستہ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان بجائے خود متشددانہ اور انتہا پسندانہ نفسیات کا اشتہار ہے۔