یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف دن رات ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ملک میں سوچنے سمجھنے والے لوگ خود وزیر اعظم بھی یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معیشت اس وقت تک مستحکم اور مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو۔ کیا وہ جماعت ن لیگ اور اس کے وزیراعظم جو فارم 47 کے وزیراعظم مانے اور جانے جاتے ہیں ملک کو سیاسی استحکام دے سکتے ہیں جن کی خود سیاسی بنیادیں کمزور ہوں۔ ایسا شاید کچھ اقتدار پر اثرانداز ہونے والی قوتوں نے جان بوجھ کر رکھا ہو کہ حکومت کو قدم قدم پر ان کی مدد کی ضرورت پڑے اور اس طرح وہ اچھے بچوں کی طرح ان کا کہنا مانتے رہیں اور کوئی بے جا ضد اور مطالبے نہ کریں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکل ہاتھ پیر باندھ کر رکھ دیے گئے ہوں اور سیاسی لوگ ان ہی رکاوٹوں کے درمیان سے اپنا راستہ نکالتے ہیں اور اسی لائن پر شہباز شریف چلنا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی اپنی کچھ بے رحم اور سنگدل مجبوریاں بھی ہوتی ہیں جن میں اندرونی جکڑبندیوں کے علاوہ کچھ بیرونی جکڑبندیاں بھی ہوتی ہیں۔
یہ بات حکمران طبقہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنایا گیا ہے اس کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو قرضے نہیں ملیں گے اور قرضے نہیں ملیں گے تو ملکی معیشت کی سانسیں بحال رکھنا مشکل ہو جائے گا اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے کہ اگر عمران خان بھی وزیر اعظم ہوتے تو وہ بھی یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتے۔ آئی ایم ایف کا مطلب امریکا ہے، بجٹ کی تشکیل کے موقع پر آئی ایم ایف کا اعلی اختیاراتی وفد ملک میں موجود تھا اس کا صاف مطلب ہے کہ امریکا کی براہ راست نگرانی میں بجٹ بنایا جارہا تھا اس طرح امریکا ملکی معیشت کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور اسی کے ذریعے سے وہ پاکستانی حکمرانوں کو سیاسی طور پر اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کو سی پیک پروجیکٹ ایک آنکھ نہیں بھارہا ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ امریکا اس پروجیکٹ کو سبوتاز تو نہیں کرسکتا لیکن یہ تو کرسکتا ہے کہ اس میں بڑے بڑے روڑے اٹکائے جائیں، بیوروکریسی اور دیگر محکموں میں اپنے گماشتوں کے ذریعے کام تیزی کے بجائے سست روی کا شکار ہوجائے 2سال کا کام 5سال تک کھنچ جائے تاکہ اس کی وجہ سے پروجیکٹس کے اخراجات اور دو ملکوں کے درمیان عدم اعتمادی میں اضافہ ہو جائے، اسی لیے ٹی ٹی پی اور را کے توسط سے ملک میں دہشت گردحملوں کا سلسلہ تیز کیا جائے اور بالخصوص پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینیوں کو ہدف بنایا جائے، ابھی اس بحث کو یہیں روکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی سورس آف انکم امریکا اور یورپی یونین ہیں غریب ملکوں کو دیے گئے قرضوں پر ملنے والا سود بھی اہم ذریعہ آمدنی ہے جو براہ راست ان بڑے ساہوکاروں کو جاتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسی رقم سے مزید کسی غریب ملک کو قرض دے کر اپنا غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہو۔ بہرحال سود پر قرضے دینے والوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے وہ یہ کہ انہیں اپنی اصل رقم سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے وہ مزید قرض پر قرض اس لیے دیتے رہتے ہیں کہ پہلے اس سے اپنے پچھلے قرضوں کا سود وصول کرلیں۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے آپ نے یہ خبر پڑھ لی ہوگی کہ جتنی مالیت کا بجٹ بنایا گیا ہے اس کی نصف سے زیادہ رقم تو سود کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔ اب پاکستان کے پاس ملک چلانے اور دیگر ملکی و غیر ملکی اور مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف کے علاوہ) کے سود اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ دوسری طرف حکمرانوں کے اوپر یہ بھی دبائو تھا، سی پیک پر کام رک جانے کی وجہ سے چین سے بھی کچھ جو تنائو پیدا ہوگیا ہے اسے بھی ختم کیا جائے اور یہ کہ اگر کوئی نیا قرض نہ مل سکے تو پرانے قرضوں کو ری شیڈول کرانے کی کوشش کی جائے، اسی لیے بجٹ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے وزیراعظم اپنے ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ چین کے دورے پر گئے وہاں پرکچھ سرمایہ کاری پر بات ہوئی کچھ اور معاملات طے ہوئے لیکن سوشل میڈیا کے ایک تجزیے کے مطابق وزیراعظم صاحب چین سے جس طرح خالی ہاتھ گئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ واپس آئے بلکہ پرانے قرضوں کو بھی ری شیڈول کرنے کی کوئی باضاطہ خبر نہیں آئی ہوسکتا ہے اس حوالے سے کچھ زبانی یقین دہانیاں کرائی گئیں ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے دورہ چین سے واپسی کے بعد سوشل میڈیا میں ایک طوفان مچ گیا کہ چین نے پاکستان کا درجہ گھٹا دیا اور یہ کہ اب پہلے جیسی بات نہیں رہی اور وزیراعظم کا دوہ تو ناکام ہو گیا، حالانکہ چین بھی پاکستان کی بین الاقوامی سیاسی مجبوریوں اور اسی حوالے سے پاکستان کی مشکلات کو سمجھتا ہے، پھر اسے پاکستان کی اندرونی ہلچل کی اطلاع ملی تو ان کے ایک اہم چوٹی کے رہنما کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ایک وفد کے ساتھ پاکستان کے دورے پر آئے یہاں انہوں نے حکمرانوں کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے اہم نمائندوں سے ملاقات کی پاکستان کی طرف سے ایک قابل تعریف کام یہ ہوا کہ چینی رہنما سے جب اس حوالے سے اہم ملاقات ہوئی تو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اس میں موجود تھے اس میں حکمران اتحاد کے علاوہ مولانا فضل الرحمن بھی تھے تو تحریک انصاف کا وفد بھی موجود تھا یہ کام کس نے کیا کہ آگ اور پانی کو ایک جگہ اکٹھا کردیا اور یہ کام یقینا اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہوگا تاکہ چین سے آنے والا وفد ایک اچھا تاثر لے کر جائے۔
ہفتہ 22جون کے تمام ملک اخبارات کی مین ہیڈنگ تھی کہ سی پیک پر قوم متحد ہے اور چین اور پاکستان دونوں نے کہا کہ ہم اس دوستی کو نسلوں تک لے جائیں گے مشترکہ مشاورتی میکنزم اجلاس میں چینی وفد، ن لیگ، پیپلز پارٹی جے یو آئی اور پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیاں یک زبان اور ایک پیج پر نظر آئیں۔ پاک چین مشاورتی میکنزم اجلاس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور بین الاقوامی محکمہ کے وزیر لیو جیانگ چائو نے کہا، سی پیک پر پاکستان اور چین کی سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا خوش آئند ہے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کو مشورہ دیا کہ اندرونی استحکام اور سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر بنائیں ادارے اور سیاسی جماعتیں مل کر چلیں اور جعلی خبروں کے چیلنج سے نمٹیں۔
چینی رہنمانے جو مشورے دیے وہ صرف مشورے نہیں بلکہ ایک طرح سے اپنی فکر اور تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان تین باتوں کو ایک طرح سے شرائط قرار دیا چین کو اپنے کام کرنے والے چینیوں کے تحفظ کی بھی فکر ہے اسی لیے سلامتی کی صورتحال بہتر اور تمام جماعتوں اور اداروں کو مل کر چلنے کی بات کی ہے، پاکستان نے اس کا بروقت جواب دے دیا کہ ملک کی تمام جماعتیں ان کے سامنے موجود تھیں اور اسی پر چینی وزیر نے کہا کہ سی پیک پر سیاسی جماعتوں کا اکٹھ خوش آئند ہے تعاون جاری رکھیں گے چینی انجینئروں اور ورکروں کے تحفظ کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں کچھ اہم فیصلے کیے گئے اور اس کے بعد ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے یہ تھے وہ اسباب جن کی وجہ سے اس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا لیکن بعد میں اس آپریشن پر سیاسی جماعتوں کے اختلافی بیانات جو سامنے آئے اور اس میں جو اضمحلال کی صورت پیش آئی اس کی وجوہات اور اسباب پر آئندہ پھر بات کریں گے۔